• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 146145

    عنوان: سچے دل سے رو رو کر توبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھنی چاہئے کہ میری توبہ قبول ہوگئی ہوگی

    سوال: میں نے 25 اپریل کو ایک مسئلہ پوچھا تھا جس کا آئی ڈی نمبر تھا 65391مجھے اسکا جواب 19مئی کو موصول ہوا جس کا لنک یہ ہے، http://www.darulifta-deoband.com/home/en/Nikah-Marriage/65391،کیونکہ سوال بہت لمبا ہے دوبارا لکھنا مناسب نہیں ہے ، اس لیے یہاں لنک دے دیا ہے ،اسی مسئلے کے حوالے سے میرے کچھ بہت ہی اہم سوالات ہیں۔ اس سے پہلے میں یہ بتانا چاھتا ہوں کہ میرا دوست اب پکی توبہ کر چکا ہے اور اللہ کے حضور رو رو کر گِڑ گِڑا کرتوبہ کر چکا ہے اور وہ تبلیغ میں 4 ماہ بھی لگا چکا ہے اس دوران وہ بہت رویا ہے بہت اور پکی توبہ کر لی ہے اور اُس بُرے ماحول سے نکل آیا ہے اوربہت وقت گزر چکا ہے اب وہ پاکیزہ زندگی گزار رہا ہے اور مختصر یہ کہ اب وہ ایسی زندگی گُزار رہا ہے اور گزارنے کی کوشش کر رہا ہے جیسی زندگی گزارنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اِس بات کا ازم رکھتا ہے کہ ہمیشہ ایسی ہی زندگی گزارے گا۔ اور اُس لڑکی کے لیے بھی ہر وقت دعا کرتا رہتا ہے ہر لحاظ سے ۔ اور وفا کا پاس رکھنے کے لیے میرے دوست نے اُس لڑکی کے گھر رشتہ بھی بھیجا تھا لیکن میرے دوست کے والدین کو پسند نہیں آیا اِس لیے یہ رشتہ نہیں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایجاب و قبول لڑکے اور لڑکی نے ہی کرنا ہوتا ہے لیکن میرا دوست بھی اِس لیے چُپ کر گیا کیونکہ وہ پہلے بھی اِس لیے اُس لڑکی سے شادی نہیں کرنا چھاہتا تھا کیونکہ وہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا جس کی تفصیل اوپر دیے گئے لنک میں ہے ۔تو میرے اس مسئلے سے متعلق چند اہم سوالات یہ ہیں۔ 1۔ کیا میرے دوست کی توبہ قبول ہے اور میرا دوست اب گناہوں سے ایسا پاک ہو گیا ہے جیسے اُس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں اور ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ؟ 2۔ کیا اب وہ ما ضی کو بھُلا کر اپنی زندگی کو نئے سرے سے ہر بوجھ سے ہٹ کر شروع کر سکتا ہے اور جس لڑکی سے وہ یا اُس کے والدین چا ھیں وہ شادی کر سکتا ہے اور اپنی زندگی کو دین پر چل کر اطمینان سے گزار سکتا ہے ؟ 3۔ اللہ تو بڑا غفور رحیم ہے وہ توبہ قبول کرنے والا ہے اور اپنے حقوق معاف کر دیتا ہے اور انشاء اللہ اُس کی توبہ قبول ہوگئی ہو گی۔ لیکن کیا حقوق العباد کے زمرے میں میرے دوست نے اُس لڑکی کا حق غضب کیا ہے ؟ 4۔ اگر ایسا ہے تو بھی میرا دوست اُس لڑکی سے معافی نہیں مانگ سکتا کیونکہ اگر وہ معافی مانگنے کیلئے اُس لڑکی سے رابطہ کرے گا تواول تو یہ نا محرم سے بات کرنے کے گناہ میں آتا ہے اور غالب امکان ہے کہ بات بڑھ جائے گی اور خطرہ ہے کہ وہ دونوں پھر سے گناہ یا زِنا کے مُرتکب نا بن جائیں۔ تو اِس حقوق العباد کو معاف کرانے کیلئے میرا دوست اللہ سے رو رو کر گڑ گڑا کر دُعا کرتا ہے کہ اللہ اُس لڑکی کہ دل میں ڈال دے کہ وہ خود میرے دوست کو معاف کر دے اور یہ بھی دعا کرتا ہے کہ اُس لڑکی کو اللہ ہدایت دے دے اور وہ بھی پکی توبہ کر کے حرام سے بچتے ہوئے پاکیزہ زندگی گُزارے ۔ اور اُس لڑکی کی خوشی کی دعا کرتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اُس کی شادی جلدی ہو جائے تاکہ وہ گناہ سے بچ جائے ۔ اور اگر وہ لڑکی کوئی بدعا کرتی ہے میرے دوست کو تو وہ قبول نا ہو۔اب اِس صورتِ حال میں میرے دوست کے زمہ سے یہ حقوق العباد معاف ہو گیا؟ یا میرے دوست کو اُس لڑکی سے معافی مانگنی پڑے گی؟ اور اگر ایسا کرنے سے لڑکی نے معاف نا کیا تو؟ اور کیا اگر وہ لڑکی میرے دوست کو کوئی بد دعا کرتی ہے تو کیا وہ بد دعا میرے دوست کو لگ سکتی ہے ؟ 5۔ غرض ایسی کیا صورت ہے کہ زندگی دوبارہ ویسی ہو جائے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اللہ تو اپنے بندے سے بہیت محبت کرتا ہے وہ اپنے بندے پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا کہ برداشت نا ہو۔ پھر یہ زندگی اتنی بوجھل کیوں؟ زندگی آسان کیسے ہو کہ ایسا لگے کہ کچھ ہواہی نہیں؟ برائے مہربانی میرے ان سوالات کا جواب دیں اور میرے دوست کو اِس بوجھ سے آزادی مل جائے اور وہ ایک نئی زندگی یکسوئی اور نئے سِرے سے اللہ کے حکموں کو پورا کرتے ہوئے گزار سکے ۔

    جواب نمبر: 146145

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 150-027/D=2/1438

    (۱) حدیث میں ہے التائب من الذئب کمن لا ذنب لہ یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں دوسری حدیث میں ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے نو مولود بچہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے ۔

    سچے دل سے رو رو کر توبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھنی چاہئے کہ میری توبہ قبول ہوگئی ہوگی لیکن اللہ کی پکڑ سے خائف بھی رہنا چاہئے پس بے فکری اور غفلت میں پڑنے سے بچنا بھی ضروری ہے الایمان بین الخوف والرجا یعنی ایمان خوف اور رجا کے درمیان کی کیفیت کا نام ہے۔

    (۲) جی ہاں ایسا ہی کرنا چاہئے۔

    (۳) زنا حقوق اللہ کی پامالی ہے جس کا تدارک صرف توبہ و استغفار ہے ، لڑکی کا خیال دل سے نکال دے کسی طرح سے بھی اس کا خیال لانا سخت مضر ہے۔

    (۴) لڑکی کا خیال، اس کے حق کے ضائع کرنے کا خیال، اس سے معافی کا خیال، معاف نہ کرنے کے تصور سے بددعا کا خیال یہ سب باتیں فضول ہیں لڑکی کے ہر خیال و تعلق کو دل سے نکال دے اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا تصور کرے اور تمام چیزوں میں اسی کی پناہ حاصل کرے اسی سے التجا کرے اسی سے توبہ و استغفار کرے اور وہ دعا کرسکتا ہے جو آپ نے لکھا ہے ”میرا دوست رو رو کر گڑا گڑا کر دعا کرتا ہے او ریہ بھی دعا کرتا ہے کہ اس لڑکی کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اور وہ بھی پکی توبہ کرکے حرام سے بچتے ہوئے پاکیزہ زندگی گذراے“۔

    (۵) گناہ کا بوجھ او ر دھبہ آہستہ آہستہ ختم ہوگا جیسا آپ چاہ رہے ہیں ایسی اللہ کی محبت دل میں پیدا کرنے اور اس کے فضل اور کرم بے نہایت سے امید رکھ کے نیز اتباع شریعت کا اہتمام کرنے سے ہوگا، کسی شیخ کامل سے اصلاحی تعلق قائم کرلینے سے مذکورہ مقاصد جلد اور بسہولت حاصل ہونے کی توقع ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند