• عقائد و ایمانیات >> فرق ضالہ

    سوال نمبر: 4176

    عنوان:

    میں نے سناہے کہ امام ابو حنیفہ کے علمائے کرام نے نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنیکے ثبوت کو کمزرو ثابت کیاہے، کیا یہ صحیح ہے؟ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا کیا ثبوت ہے؟ (۲) اگر کسی عام آدمی کواپنے مسلک کے علاوہ کسی دوسرے مسلک میں کوئی قوی ثبوت ملتاہے تو وہ اس پر عمل کرسکتاہے؟ اگر نہیں ؟ تو براہ کرم، ایسی حد کی تعین بتائیں جس کے ذریعہ کوئی عالم مذاہبکے دلائل میں فیصلہ کر نے کی قوت پیدا کرسکیں۔

    سوال:

    میں نے سناہے کہ امام ابو حنیفہ کے علمائے کرام نے نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنیکے ثبوت کو کمزرو ثابت کیاہے، کیا یہ صحیح ہے؟ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا کیا ثبوت ہے؟ (۲) اگر کسی عام آدمی کواپنے مسلک کے علاوہ کسی دوسرے مسلک میں کوئی قوی ثبوت ملتاہے تو وہ اس پر عمل کرسکتاہے؟ اگر نہیں ؟ تو براہ کرم، ایسی حد کی تعین بتائیں جس کے ذریعہ کوئی عالم مذاہبکے دلائل میں فیصلہ کر نے کی قوت پیدا کرسکیں۔

    جواب نمبر: 4176

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 188/ د= 160/ د

     

    (۱) ابوداوٴد شریف کی روایت میں ہے أن علیا رضي اللّٰہ عنہ قال السنة وضع الکف علی الکف في الصلوة تحت السرة اور مصنف ابن شیبہ میں روایت ہے عن علقمة ابن وائل ابن حجر عن أبیہ قال رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاة تحت السرة فھذا حدیث صحیح سندًا ومتنًا تقوم بہ حجة فلا وجہ لمن قال لیس للحنفیین دلیل قوي فيہذہ المسئلة تفصیلی بحث اعلاء السنن، ج۳ ص۱۷۰ میں مطالعہ فرمائیں۔ لہٰذا کمزور ثابت کرنے کی بات جو آپ نے سنی ہے وہ درست نہیں ہے۔ امام ترمذی اپنی کتاب میں یہ لکھ چکے ہیں۔ والعمل علی ھذا عند أھل العلم من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین ومن بعدھم یرون أن یضع الرجل یمینہ علی شمالہ في الصلاة ورأی بعضھمن أن یضعھما تحت السرة والکل واسع عندھم ترمذی کی اس عبارت سے بھی ظاہر ہے کہ تحت السرة ہاتھ باندھنے کا ثبوت ہے جو کمزور نہیں ہے۔

    (۲) آیات قرآنی اوراحادیث نبویہ کو سامنے رکھتے ہوئے صحابہٴ کرام کے عمل کو بھی پیش نظر کرنا ہوگا کہ ان حضرات نے کس طرح عمل کیا تھا احادیث نبویہ کے پورے ذخیرہ پر نظر رکھنا اور احادیث کے درجات کو سند و متن کے اعتبار سے پہنچاننا پھر تعارض کی شکل میں تطبیق یا ترجیح کا طریقہ اختیار کرنا گہرے علم وسیع معلومات کا متقاضی ہے، حضرات ائمہ اربعہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس دولت سے سرفرارز فرمایا تھا اس کام کو انجام دے چکے ہیں، اس لیے ہمارے لیے سلامتی اسی میں ہے کہ خود جج بننے کے بجائے ان حضرات مجتہدین کے استنباطات پر اعتماد و یقین کرتے ہوئے انکی تقلید کریں اور ان حضرات مجتہدین نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و مدد سے قرآن واحادی کے معانی سمجھ کر امت مسلمہ کے واسطے احکام و مسائل مستنبط کرکے امت کو خود روی اور خودرائی کے فتنہ سے بچنے کا سامان کردیا ہے، ان حضرات کے علم وفہم پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی پیروی کریں۔ عامی آدمی کو کسی مسئلہ میں دوسرے مسلک پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند