• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 2752

    عنوان: تحذیر الناس کی عبارت پر اشکال

    سوال:

    بریلوی حضرات ہمارے اکابر دیوبند پر بہت سے الزامات لگاتے ھیں ۔ ایک بریلوی نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمت اللہ پر الظام لگایا اس کی کافی باتوں کا جواب میں دینے کے قابل تھا کافی کا جواب نہی دے پایا ۔ اپ سے مدد کی درخواست ھے ۔ اس نے کہا کے تخذیر الناس میں مولانا نے ختم نبوت انکار کیا ھے جس کے بارے میں بانی دیوبند قاسم نانوتوی لکھتے ہیں: سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتمہ ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تآخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں، پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔ (تحذیر الناس صفحہ3 طبع دیوبند ۔ دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں: جب مولانا محمد قاسم صاحب۔۔۔۔۔۔۔ نے کتاب تحذیرالناس لکھی تو سب نے مولانا محمد قاسم صاحب کی مخالفت کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب نے۔ (قصص الاکابر صفحہ 159 طبع جامعہ اشرفیہ لاہور خط کشیدہ عبارت صفحہ 3 کی ابتداء میں بتایا عوام کے خیال میں خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہیں ، مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ زمانہ تقدم یا تاخرّ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ۔ اس بات کو بنیاد قرار دیکر آیۃ مبارکہ ماکان محمد ابا احد من رجالکم والکن رسول اللہ وخاتم النبیین ۔ پر بحث کرتے ہوئے لکھا کہ اس آیت کو تاخر زمانی کے معنی میں لیا جائے تو یہ آیت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مدح نہیں ہوسکتی ، چونکہ یہ آیت مقام مدح*میں واقع ہے اس لیے خاتم بمعنی آخری نبی نہیں ہوسکتا ۔ پھر اس میں مزید اضافہ کیا : اگر خاتم النبیین کا معنی آخری نبی مان لیا جائے تو اس سے تین خرابیاں لازم آئیں گی ۔ اول یہ کہ اللہ تعالٰی پر زیادہ گوئی کا وہم ہوگا ( نعوذباللہ ) کیونکہ جب خاتم النبیین کا معنی آخری نبی مان لیا گیا تو یہ آیت کریمہ مدح نہ ہوگی اور لفظ خاتم اوصاف نبوت میں سے نہ ہوگا بلکہ قدو قامت اور شکل و رنگ کی طرح ایسا وصف ہوگا جس کو نبوت اور اس کے فضائل میں دخل نہ ہوگا ۔ دوسری خرابی یہ لازم آئے گی کہ اس سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نقصان قدر کا احتمال ہوگا کیونکہ خاتم النبیین کا معنی اگر آخری نبی مان لیا گیا تو اب یہ وصف مدح اور کمال نہ رہے گا ، جبکہ ایسے اوصاف جن میں مدح و کمال نہ ہو ایسے ویسے لوگوں کے لیے بیان کیے جاتے ہیں ۔ تیسری خرابی کو یوں بیان کیا اگر اس آیت قرآنی میں اس دین کے آخری ہونے کو بیان کرنا مان لیا جائے جو اگرچہ قابل لحاظ ہوسکتا ہے مگر اس صورت میں قرآنی آیت کے دونوں جملوں ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین میں بے ربطی پیدا ہوجائیگی جوکہ اللہ تعالٰی کے معجز کلام میں متصور نہیں ہوسکتی ۔ ان تین مفروضہ دلائل سے یہ ثابت کرنے کے بعد کہ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی (تاخرزمانی )*درست نہیں ہے ، لکھا کہ یہاں خاتم النبیین کی خاتمت کی بنیاد اور بات پر ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں خاتم کا معنیٰ بالذات (بلاواسطہ) نبی کے ہیں ، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بالذات نبی ہیں اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام بالعرض (بالواسطہ) نبی ہیں ، پھر صفحہ 13 اور 24 کی عبارت میں اس بات کی تصریح کردی ہے : آپ کے زمانہ کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہوجائے تب بھی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔ بعض لوگ یہاں پر لفظ فرض کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات فرض کی گئی ہے جبکہ فرض تو محال کو بھی کیا جاسکتا ہے ، حالانکہ وہ چشم پوشی سے کام لیتے ہیں ، کیونکہ فرض اگرچہ محال کو بھی کیا جاسکتا ہے مگر محال کے فرض کرنے پر فساد اور بطلان لازم آیا کرتا ہے ، محال کے فرض کو امکان یا صحت لازم نہیں آتی جبکہ یہاں بعد میں پیدا ہونے والے نبی کو فرض کرنے پر کہا گیا ہے کہ کوئی خرابی لازم نہیں آتی کیونکہ خاتمیت میں فرق نہیں آتا ۔ نیز یہاں فرض تقدیری نہیں ، بلکہ فرض تجویزی ہے اس لیے انہوں نے فرض کے ساتھ لفظ تجویز بھی استعمال کیا ہے ، غرضیکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا عوام کا خیال ( جبکہ یہاں*معنی قطعی ہے اور اسی پر اجماع صحابہ اور اجماع امت ہے ) پھر واضح طور پر تاخر زمانی کے لحاظ سے آخری نبی کے معنی کو تین طرح سے نادرست ثابت کرنا اور ساتھ ہی یہ تصریح کرنا کہ خاتم النبیین کا معنی بالذات نبی کے ہیں اور اس پر صراحۃ بار بار یہ کہہ دینا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا آپ کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہوجائے تو خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔ یہی وہ عبارت ہیں جن کی بنیاد پر قدیانی مرزا نے اپنی نبوت کی عمارت قائم کرلی۔

    جواب نمبر: 2752

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1885/ ھ= 1455/ ھ

     

    صاف شفاف سیدھی سادی عبارتوں کو توڑمروڑ کر کتربیونت مکرو فریب کرتے ہوئے زبردستی کفر کشید کرکے الزامات لگاکر اپنے نامہٴ اعمال کو سیاہ کرنے میں ایڑی جوٹی کا زور لگانا بریلوی حضرات کا آج کا کارنامہ نہیں، تقریباً ایک صدی سے زائد عرصہ سے اسی طرح دجل و فریب کرتے چلے آرہے ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ نے ہرقسم کی خاتمیت حضرت سید الاولین والآخرین محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ عیہ وسلم کے لیے مدلل ثابت فرماکر مرزا غلام قادیانی علیہ ما یستحقہ اور اس کے اعوان و انصار کے مونہوں پر مہر سکوت ثبت کردی ہے۔ رابطہٴ عالمِ اسلامی اور پاکستان کے ایوانِ اسمبلی میں بھی مدلل ریکارڈ موجود ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے ہمنواوٴں کے لیے راستہ صاف کرنے والے تو درحقیقت وہ لوگ ہیں کہ جو خاتمیت کو ختم زمانی میں منحصر مانتے ہیں، بریلویوں کے کشید کردہ الزامات سے تھوڑی دیر کے لیے صرف نظر فرماکر آپ اصل کتاب تحذیر الناس اوراس کی کوئی شرح مناظرہٴ عجیبہ کو ملاحظہ کریں، اس کے بعد اگر کوئی اشکال رہے تو لکھئے اس کے بعد ہم ان شاء اللہ مزید تفصیل تحریر کریں گے۔

     

    نوٹ: فتاویٰ رحیمیہ جلد اول اردو اورانگریزی مطبوعہ کناڈامیں دستیاب ہے، شروع میں ہی فتویٰ نمبر (۲) بعنوان اہل بدعت کی کفربازی کا تسلی بخش جواب اطمینان سے ملاحظہ کریں، ان شاء اللہ اُسی سے حقیقت واضح ہوجائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند