• عقائد و ایمانیات >> فرق ضالہ

    سوال نمبر: 26013

    عنوان: میں کچھ سالوں سے خلیج میں رہ رہاہوں، اور میرا تعلق گجرات سے ہے۔ الحمد للہ، دعوت و تبلیغ کے کام سے جڑاہو اہوں، لیکن جب سے یہاں آیاہوں ، یہاں پر لوگوں کی نماز کے طریقے دیکھ کر کچھ تذبذب میں پڑ گیا ہوں، کافی مسجدوں میں درس حدیث ہوتاہے جس میں طریقے نماز صرف اور صرف یہاں پر جو پڑھتے ہیں ایسے ہی بتایا جاتاہے جس کی وجہ سے میرے کچھ احباب بھی الجھن میں ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے؟ میرے تین دوست تو تقریبا تقلید کو ترک چکے ہیں اور کچھ الجھے ہوئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ ہماری طرح کئی افراد یہاں پر اسی کشمکش میں ہیں کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔ 
    میری آپ سے گذارش ہے کہ نیچے لکھے ہوئے مسئلوں کے جوابات حوالے کے ساتھ (حدیث نمبر) واضح طورپر دیں تاکہ میں اپنی اور دوسروں کی الجھنوں کو ختم کرسکو ں۔ (۱) رکعتوں کی تعداد، (۲) ناف کے نیچے یا اوپر ہاتھ باندھنا اور ہمارے برابر والے کے پیر سے پیر ملانا، (۳) امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھنی ہے یا نہیں، (۴) زور سے آمین کہنا، (۵) رفع یدین کرنا چاہئے یا نہیں؟ (۶) وتر کی نماز کا صحیح طریقہ، (۷) نماز بغیر ٹوپی کے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ (۸) کیا صرف چھ احادیث کی کتابیں ہی صحیح ماننی چاہئے؟ دووسری کتابیں جیسے فضائل اعمال کے حوالے سے بہت سے باتیں مجھے ان لوگوں نے بتائی ہے جو چھ احادیث کی کتابوں میں نہیں ہیں، اس پر بھی کچھ روشنی ڈالیں۔ 
    حضرت ! میں نے دارالافتاء کے سارے سوالات وجوابات پڑھے ہیں مگر اس سے مطمئن نہیں ہوپایا ہوں، کئی عالموں سے دریافت کرنے کی کوشش کی، لیکن مجھے صحیح جواب نہیں مل رہا ہے، اس لیے سوچا کہ خود ہی لکھ پتا کرلوں۔ براہ کرم، میرے ان سوالوں کے جوابات حدیث نمبر کے حوالے کے ساتھ دیں تاکہ میں ان لوگوں بھی بتاسکوں۔ 

    سوال: میں کچھ سالوں سے خلیج میں رہ رہاہوں، اور میرا تعلق گجرات سے ہے۔ الحمد للہ، دعوت و تبلیغ کے کام سے جڑاہو اہوں، لیکن جب سے یہاں آیاہوں ، یہاں پر لوگوں کی نماز کے طریقے دیکھ کر کچھ تذبذب میں پڑ گیا ہوں، کافی مسجدوں میں درس حدیث ہوتاہے جس میں طریقے نماز صرف اور صرف یہاں پر جو پڑھتے ہیں ایسے ہی بتایا جاتاہے جس کی وجہ سے میرے کچھ احباب بھی الجھن میں ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے؟ میرے تین دوست تو تقریبا تقلید کو ترک چکے ہیں اور کچھ الجھے ہوئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ ہماری طرح کئی افراد یہاں پر اسی کشمکش میں ہیں کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔ 
    میری آپ سے گذارش ہے کہ نیچے لکھے ہوئے مسئلوں کے جوابات حوالے کے ساتھ (حدیث نمبر) واضح طورپر دیں تاکہ میں اپنی اور دوسروں کی الجھنوں کو ختم کرسکو ں۔ (۱) رکعتوں کی تعداد، (۲) ناف کے نیچے یا اوپر ہاتھ باندھنا اور ہمارے برابر والے کے پیر سے پیر ملانا، (۳) امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھنی ہے یا نہیں، (۴) زور سے آمین کہنا، (۵) رفع یدین کرنا چاہئے یا نہیں؟ (۶) وتر کی نماز کا صحیح طریقہ، (۷) نماز بغیر ٹوپی کے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ (۸) کیا صرف چھ احادیث کی کتابیں ہی صحیح ماننی چاہئے؟ دووسری کتابیں جیسے فضائل اعمال کے حوالے سے بہت سے باتیں مجھے ان لوگوں نے بتائی ہے جو چھ احادیث کی کتابوں میں نہیں ہیں، اس پر بھی کچھ روشنی ڈالیں۔ 
    حضرت ! میں نے دارالافتاء کے سارے سوالات وجوابات پڑھے ہیں مگر اس سے مطمئن نہیں ہوپایا ہوں، کئی عالموں سے دریافت کرنے کی کوشش کی، لیکن مجھے صحیح جواب نہیں مل رہا ہے، اس لیے سوچا کہ خود ہی لکھ پتا کرلوں۔ براہ کرم، میرے ان سوالوں کے جوابات حدیث نمبر کے حوالے کے ساتھ دیں تاکہ میں ان لوگوں بھی بتاسکوں۔ 

    جواب نمبر: 26013

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1692=1246-11/1431

    (۱) فجر دو رکعت، ظہر، ظہر چار رکعت، عصر چار رکعت، مغرب تین رکعت، عشاء چار رکعت ہیں، یہ تعداد رکعات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر اب تک تواتر کے ساتھ ثابت ہیں: عن ابن المنکدر وإبراہیم بن میسرة سمعا أنسًا قال: صلیت مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم الظہر بالمدینة أربعًا (نسائي: ۱/۸۲، کتاب الصلوات باب عدد صلاة الظہر في الحضر) عن أبي سعید الخدري قال: کنا نحرز قیام رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وسلم في الظہر والعصر․․․ وحرزنا قیامہ في الرکعتین الأولیین من العصر علی قدر الأخیرین من الظہر، وحرزنا قیامہ في الرکعتین الأخیرین من العصر علی النصف من ذلک (نسائي: ۱/۸۳، باب عدد صلاة العصر في الحضر) مسند احمد میں سب سے واضح حدیث موجود ہے جس سے پانچوں نمازوں کی تعداد رکعات بہ خوبی معلوم ہوتی ہے: وکان صلی اللہ علیہ وسلم إذا سافر صلی الصلاة الأولی (اي الفریضة الأولی وہو رکعتین) إلا المغرب ، وإذا أقام زاد مع کل رکعتین رکعتین، إلا المغرب لأنہا وتر، والصبح، لأنہا یطول فیہا القراء ة (جمع الفوائد: ۱/۱۳۸، بہ حوالہ مسند أحمد)
    (۲) نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا مسنون ہے، چناں چہ ابوداوٴد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: السنة وضع الکف علی الکف تحت السرة رواہ أبوداوٴد (إعلاء السنن: ۱/۳۹۰) وعن علقمة بن وائل بن حجر عن أبیہ قال: رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاة تحت السرة أخرجہ ابن أبي شیبة (إعلاء السنن: ۲/۱۶۴-۱۷۰) نماز میں صفوں کی درستگی کی بڑی تاکید آئی ہے، تسویة الصف چار امر کو شامل ہے: قیام کی جگہ ایک ہو، اَقدام برابر ہوں، اتصال ہو اور پہلی صف پوری ہونے پر دوسری صف لگائی جائے، یہ مضمون مختلف احادیث میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: عن جابر بن سمرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألا تصفون کما تصف الملائکة عند ربہم، قلنا: وکیف تصف الملائکة، قال: یتمون الصفوف المتقدمة ویتراصون في الصف - وأن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بأیدي إخوانکم ولا تذروا فرجات للشیطان۔ وعن أنس بن مالک عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: رصوا صفوفکم وقاربوا بینہا، وحاذوا بالأعناق، فو الذي نفسي بیدہ إني لأری الشیطان یدخل من خلل الصف کأنھا الحذف․ (ابوداوٴد: ۱/۹۷، کتاب الصلاة باب تسویة الصفوف)
    امام بخاری علیہ الرحمة نے مختلف عنوانات سے ابواب قائم کرکے مسائل کو ثابت فرمایا ہے: باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم في الصف کی شرح میں حافظ ابن حجر علیہ الرحمة نے فتح الباری میں فرمایا ہے: اس سے حقیقی قدم سے قدم ملانا مراد نہیں بلکہ صف کی درستگی اور خالی جگہ پُر کرنے میں مبالغہ ہے: المراد بذلک المبالغة في تعدیل الصف وسد خللفہ (فتح الباري: ۲/۲۶۸، کتاب الأذان، باب إلزاق المنکب بالمنکب، ط: قدیمي) اور ائمہ اربعہ کے نزدیک حدیث کامطلب بھی یہی ہے کہ صف میں اتنی جگہ خالی نہ رہ پائے جس سے کسی تیسرے آدمی کی گنجائش نکل سکے، پھر یہ کہ غور کرنے سے خود پتہ چل جائے گا کندھے سے کندھا ملاکر قدم سے قدم ملانا کتنا دشوار امر ہے، قلت: وھو مرادہ عند الفقہاء الأربعة أي لا یترک في البین فرجة تَسَعُ فیہا ثالثًا بقي ا لفصل بین الرجلین․․․․ ثم فکّر في نفسک ولا تعجل أنہ ہل یمکن إلزاق المنکب مع إلزاق القدم إلا بعد ممارسة شاقة ولا یمکن بعدہ أیضًا (فیض الباري: ۲/۲۳۶-۲۳۷ کتاب الأذان باب إلزاق المنکب) اس لیے برابر والے کے کندھا سے کندھا ملانا مسنون ہے۔
    (۳) احناف کے نزدیک سری جہری ہرنماز میں امام کے پیچھے سورہٴ فاتحہ پڑھنا جائز نہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاِذَا قُرِئ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (اعراف: ۲۰۴) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز میں قراء ت کی اور آپ کے پیچھے آپ کے اصحاب نے بھی بلند آواز سے قراء ت کی جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں گڑبڑی پیدا ہوئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
    اصحاب رسول میں عبد اللہ بن مسعود، ابوہریرہ، ابن عباس، عبد اللہ بن مغفل، رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین میں سعید بن جبیر، ابن رباح، ابراہیم نخعی، شعبی، حسن بصری، امام زہری، مجاہد، قتادہ اور اکثر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ یہ آیت نماز کے متعلق اور بعض کے نزدیک جمعہ کے خطبہ کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۲/۲۸۰-۲۸۱) نیز مسند احمد میں ابوموسیٰ ا شعری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سکھایا کہ جب تم لوگ نماز کے لیے کھڑے ہو اور تم میں کا کوئی امامت کرے، پس جب امام قراء ت کرے تو تم لوگ خاموش رہو: عن أبي موسی قال: عَلَّمَنَا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: إذا قمتم إلی الصلاة، فلیوٴمکم أحدکم، وإذا قرأ الإمام فأنصتوا (مسند أحمد: ۴/۴۱۵) نیز مسلم: ۱/۱۷۴، باب التشہد فی الصلاة، ابن ماجہ: ۶۱، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا، نسائی: ۱/۴۶، باب ترک القراء ة خلف الإمام فیما لم یجہر فیہ، میں قراء ت خلف الامام کی ممانعت کی روایت موجود ہیں۔
    (۴) آمین دعا ہے جس کے معنی ہیں ”اے اللہ تو قبول فرما“ امام بخاری علیہ الرحمة نے اپنی صحیح میں حضرت عطاء کا قول نقل کیا ہے: الآمین دعاء (بخاري: ۱/۱۰۷، کتاب الأذان باب جہر الإمام بالتأمین) اور دعا میں اخفاء اصل اور افضل ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً (الآیة) اس لیے نماز میں بھی امام ومقتدی کو آمین آہستہ کہنا چاہیے۔
    عن أبي ہریرة أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: إذا أمّن ا لإمام فأمّنُوْا، وعنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: إذا قال الإمام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین (بخاري: ۱/۱۰۸، کتاب الأذان) ان دونوں حدیثوں میں مقتدیوں کے آمین کہنے کو، امام کے والا الضالین کہنے پر معلق کیا، نہ کہ امام کے آمین کہنے پر، اس سے معلوم ہوا کہ امام آمین آہستہ کہے گاجس کو مقتدی نہ سن سکیں گے۔ البتہ ولا الضالین کی آواز جہری قراء ت کی وجہ سے سبھی سن لیں گے، لہٰذا امام کے ولا الضالین کہنے پر مقتدیوں کو بھی آمین کہنا ہے۔ (اعلاء السنن: ۲/۲۱۱) اس سلسلہ کی سب سے واضح حدیث امام شعبہ سے مروی ہے: عن علقمة بن وائل عن أبیہ أنہ صلی مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فلما بلغ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین، قال:آمین وأخفی بہا صوتہ، رواہ أحمد وأبوداوٴد الطیالسي، والحاکم في المستدرک، وأخرجہ في کتاب القراء ة ولفظہ: خفض بہا صوتہ وقال: حدیث صحیح الإسناد لم یخرجاہ، اکثر صحابہ اور تابعین آمین آہستہ کہا کرتے تھے وأیضًا فإن أکثر الصحابة والتابعین کانوا یخفون بہا کما في الجوہر النقي (إعلاء السنن: ۲/۲۱۹) اس لیے فقہائے احناف نے ان روایات کو سامنے رکھ کر آمین بالسر کو مسنون کہا ہے۔
    (۵) تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا متفق علیہ مسئلہ ہے، لیکن اس کے بعد رکوع میں جاتے، رکوع سے اٹھتے وقت اور تشہدکے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھ کواٹھانا مختلف فیہ ہے، احناف کے نزدیک ان جگہوں میں نہ اٹھانا بہتر اور افضل ہے، کیوں کہ عند الاحناف رفع یدین کی احادیث منسوخ ہوگئی ہیں، جیسا کہ احادیث کریمہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام نے رفع یدین کو ترک کردیا تھا، اور صرف نیت باندھتے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔
    عن علقمة قال: قال عبد اللہ بن مسعود: ألا أصلي بکم صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصلی فلم یرفع یدیہ إلا في أول مرة (ترمذی: ۱/۵۹، کتاب الصلاة، باب رفع الیدین عند الرکوع) عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نسائی: ۱/۱۵۸، کتاب الصلاة یترک ذلک۔ مسند امام اعظم: ۱/۳۵۵، بیہقی: ۲/۷۹، شرح معانی الآثار: ۱/۱۱۰، ابوداوٴد: ۱/۱۰۹، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع) میں مروی ہے۔
    وعن البراء أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا افتتح الصلاة رفع یدیہ إلی قریب من أذنیہ ثم لا یعود (أبوداوٴد: ۱/۱۰۹، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع) اس کے علاوہ عبد اللہ بن عمر: ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ترک رفع یدین کی احادیث مروی ہیں۔ اس لیے فقہائے احناف کے نزدیک رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنا اولیٰ اور افضل ہے۔
    (۶) وتر کی نماز تین رکعت دو سلام سے ثابت ہے اور تیسری رکعت میں رکوع سے قبل قنوت پڑھنا ہے: ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف سے مروی ہے کہ:
    أنہ سأل عائشة کیف کان صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في رمضان؟ قالت یصلي أربعًا فلا تسئل عن حسنہن وطولہن ثم یصلي أربعًا فلا تسئل عن حسنہن وطولہن ثم یصلي ثلاثا (بخاري: ۱/۱۵۴، باب قیام النبي صلی اللہ علیہ وسلم باللیل في رمضان وغیرہ) اس حدیث میں آٹھ رکعت تہجد اور تین رکعت وتر کا تذکرہ ہے۔
    وعن عبد اللہ بن مسعود أنہ رقد عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاستیقظ فتسوک وتوضأ․․․ ثم قام فصلی رکعتین ․․․ ثم أوتر بثلاث (مسلم: ۱/۲۶۱، باب صلاة النبي ودعائہ باللیل) امام نسائی نے سنن کبری میں کیف الوتر بثلاث کا باب قائم کرکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی روایت یوں نقل کی ہے: کان لا یسلم في رکعتي الوتر (نسائي: ۱/۲۴۸،کیف الوتر بثلاث)
    وعن مسور بن مخرمة قال: دفنا أبا بکر رضي اللہ عنہ لیلةً، فقال عمر رضي اللہ عنہ: إني لم أوتر، فقام، فصففنا وراء ہ، فصلی بنا ثلاث رکعات لم یسلم إلا في آخرہن (طحاوي: ۱/۱۴۳) اس سے معلوم ہوا کہ دو رکعتوں پر سلام نہ پھیرا جائے بلکہ نماز مغرب کی طرح دو رکعت پر قعدہ اولیٰ کرکے کھڑے ہونا ہے، پھر تیسری رکعت پر سلام پھیرنا ہے۔
    نیز وتر کی نماز میں قنوت رکوع میں جانے سے قبل پڑھنا ہے: لما روي ا لبخاري عن أنس بن مالک أنہ سألہ عاصم عن القنوت، فقال: قد کانت القنوت، قلت قبل الرکوع أو بعدہ، قال أقبلہ، قال: فإن فلاناً أخبرني عنک أنک قلت بعد الرکوع، فقال: کذب إنما قنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد رکوع شہرًا․ إلخ (بخاري: ۱/ ۱۳۶، باب القنوت قبل الرکوع وبعدہ)
    بخاری شریف کی اس روایت کے علاوہ بھی متعدد احادیث میں دعائے قنوت کے رکوع سے قبل پڑھنے کا تذکرہ ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے آپ ”اعلاء السنن، بذل المجہود شرح ابی داوٴد، بدائع الصنائع“ وغیرہ کا مطالعہ کرلیں۔
    (۷) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کی عادت شریفہ عام حالات میں ٹوپی عمامہ پہننے کی تھی، کتب حدیث میں اس کی جابہ جا صراحت ملتی ہے، چناں چہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم علیہ السلام سفید ٹوپی پہنتے تھے، اس کو طبرانی سے روایت کیا ہے، امام سیوطی رحمہ اللہ نے جامع صغیر میں فرمایا ہے کہ اس کی سند حسن ہے (السراج المنیر: ۴/۱۱۲) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام سفر میں کان والی اور حضر میں پتلی یعنی شامی ٹوپی پہنتے تھے۔ امام عراقی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ٹوپی کے باب میں یہ سب سے عمدہ سند ہے (فیض القدیر: ۵/۲۴۶)
    بخاری شریف: ۲۰۹۸، ۲/۸۶۴ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مُحرم، کرتا، عمامہ پائجامہ اور ایک خاص قسم کی ٹوپی نہیں پہنے گا۔
     عن عبد اللہ بن عمر أنّ رجلاً قال یا رسول اللہ! ما یلبس المحرم من الثیاب قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یلبس القمیص ولا العمائم ولا السراویلات ولا البرانس ولا الخفاف إلخ (بخاری: ۱/۲۰۹، کتاب المناسک، باب ما یلبس المحرم من الثیاب) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس زمانے میں لباس، کرتا پائجامہ عمامہ ٹوپی ہوا کرتا تھا، اس لیے احرام کے وقت اس کے پہننے سے ممانعت فرمائی، اس لیے فقہائے کرام نے ان احادیث اور عادت شریفہ مستمرہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا خلاف سنت اور مکروہ ہے، اگر خشوع وخضوع اور غایت درجہ تذلل کی وجہ سے اتفاقیہ ہو تومکروہ نہیں، لہٰذا ننگے سر نماز پڑھنا خلاف سنت اور مکروہ ہے۔
    (۸) صحیح احادیث صرف ان چھ کتابوں میں منحصر نہیں، بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث صحیحہ، صحاحِ ستہ کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں موجود ہیں۔
    جب حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمة کے حکم سے تدوین حدیث کا آغاز ہوا اور کتاب الآثار، موٴطا مالک جامع سفیان ثوری، مسند احمد وغیرہ وجود میں آئیں اور مسانید کی تالیف سے تمام پراگندہ اورمنتشر روایات جمع ہوگئیں تو اس دور کے محدثین نے انتخاب واختصار کا طریقہ اختیار کیا، اس طرح صحاحِ ستہ کی تدوین عمل میں آئی۔ امام بخاری نے اپنے ذوق سے احادیث صحیحہ کا ایک نہایت عمدہ اور مختصر مجموعہ مرتب کیا جس میں انھوں نے صحیح حدیث کے جمع کرنے کا اہتمام کیا تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے ساری صحیح حدیث کو اس میں جمع کردیا اور جو اس میں موجود نہ ہو وہ صحیح نہیں، کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خود تصریح کی ہے کہ میں نے بہت سی صحیح حدیث کو طوالت کے خوف سے چھوڑدیا ہے، چناں چہ حافظ ابن عدی بہ سند متصل امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: ما أدخلت في کتابي الجامع إلا ما صح، وترکت من الصحیح حتی لا یطول (مقدمہ فتح الباري: ۱/۵، ط: مصریہ) امام مسلم نے اپنی جامع صحیح کا انتخاب اُن تین لاکھ احادیث سے کیا جن کو انھوں نے براہ راست اپنے شیوخ سے سنا تھا، جن کی تعداد بشمول مکررات بارہ ہزار اور بہ حذف مکررات چار ہزار ہے۔
    پھر امام حاکم نے صحیحین کا استدراک کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے اپنے حسنِ ذوق سے ان صحیح احادیث کو جمع کیا جو صحیحین میں نہ تھیں اورامام ذہبی رحمہ اللہ نے اس پر نظر ثانی کی اور ان احادیث میں سے بعض وہ جو علی شرط الشیخین نہ تھیں، مگر امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کو داخل کتاب کرلیا تھا، ان کی نشاندہی فرمائی ہے اور جن پر انھوں نے کلام نہیں کیا اس کی صحت عند العلماء مُسلَّم ہے، دیگر کتب اربعہ میں جو حدیث ہیں ان کے علاوہ بھی صحیح احادیث پائی جاتی ہیں۔ اس لیے یہ گمان رکھنا کہ جو حدیث صرف صحاح ستہ میں ہے وہی صحیح ہیں، یہ قطعاً جہالت اور علم حدیث سے ناواقفیت کی علامت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند