• عقائد و ایمانیات >> فرق ضالہ

    سوال نمبر: 15507

    عنوان:

    یہ سوال ملفوظات حکیم الامت نامی کتاب سے متعلق ہے، اسی طرح کا سوال شاید کسی بریلوی نے گھما پھرا کر آپ کی ویب سائٹ پر پوچھا ہے۔ سوال نمبر14816ہے۔ ملفوظات میں صفحہ نمبر292پر ہے۔ ملفوظات نمبر513 [ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں دروازے پر کھڑے ہوکر یا راستے میں چلتے ہوئے کسی چیز کے کھانے سے پرہیز نہیں کرتا۔ اگر کبھی اسلامی سلطنت ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ میری شہادت قبول نہ ہوگی، عدالت میں جانے سے بچ جاؤں گا کوئی گناہ تو ہے نہیں]۔مذکورہ بالا فتوے کو لے کر بریلوی شور مچارہے ہیں کہ حضرت تھانوی کو دیوبند کے دارالافتاء والوں نے ہی فاسق کہہ دیا۔ وضاحت درکار ہے؟

    سوال:

    یہ سوال ملفوظات حکیم الامت نامی کتاب سے متعلق ہے، اسی طرح کا سوال شاید کسی بریلوی نے گھما پھرا کر آپ کی ویب سائٹ پر پوچھا ہے۔ سوال نمبر14816ہے۔ ملفوظات میں صفحہ نمبر292پر ہے۔ ملفوظات نمبر513 [ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں دروازے پر کھڑے ہوکر یا راستے میں چلتے ہوئے کسی چیز کے کھانے سے پرہیز نہیں کرتا۔ اگر کبھی اسلامی سلطنت ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ میری شہادت قبول نہ ہوگی، عدالت میں جانے سے بچ جاؤں گا کوئی گناہ تو ہے نہیں]۔مذکورہ بالا فتوے کو لے کر بریلوی شور مچارہے ہیں کہ حضرت تھانوی کو دیوبند کے دارالافتاء والوں نے ہی فاسق کہہ دیا۔ وضاحت درکار ہے؟

    جواب نمبر: 15507

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1941=356th/1430

     

    گھما پھراکر سوال کرنا، صاف شفاف عبارات میں کتر بیوینت کرنا زبردستی کفر کشید کرنا پھر کافر کی رٹ لگاکر اہل حق کو بدنام کرنا ہمیشہ باطل کا شیوہ رہا ہے، نالائق خوارج آیت مبارکہ (اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّہِ) کا نعرہ لگاکر سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے زعم فاسد میں کافر قرار دیا کرتے تھے۔ (نعوذ باللہ منہ) سابق سوال کے متعلق جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ غالباص کسی رضاخانی نے گھماپھراکر کیا تھا، آپ کا احساس صحیح ہے، سائل نے فرضی امام کے فرضی حالات اپنی عادت کے مطابق لکھے تھے جن میں کھلے عام بے شرمی وغیرہ کی بھی صراحت کی تھی جس کا جواب یہاں سے تحریر کردیا گیا تھا اور جواب کے اخیر میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ [بہتر یہی تھا کہ یہی سوال پہلے مذکور فی السوال امام صاحب سے تحریراً کرتے اور ان کا فتویٰ منسلک کرکرے یہاں بھیجتے] رضاخانی سائل میں اگر کچھ انصاف کی رمق ہوتی تو اپنی نظر عنایت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی طرف گھمانے کے بجائے امام صاحب سے فتویٰ حاصل کرکے سوال دوبارہ کرتے، مگر اس کے برخلاف اپنے فرضی نیز دجل وتلبیس پر مشتمل سوال اور ہمارے جواب کو حضرت تھانوی رحمہ اللہ پر چسپاں کرکے زبردستی فاسق قرار دیتے ہیں، خیر رضاخانی تو بیچارے اپنی بیمار ذہنیت کے پیش نظر معذور ہیں، البتہ آپ اورآپ جیسے منصف مزاج حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ کھلے عام بے شرمی کے حالات اختیار کرتے ہوئے راستوں میں کھاتے پھرنا اوردروازہ پر کھڑے ہوکر اور راستہ میں چلتے ہوئے کھالینے سے پرہیز نہ کرنا دونوں میں زمیں آسمان کا فرق ہے، خود حضراتِ فقہائے کرام نے دوسری حالت کو گناہ میں شمار نہیں فرمایا اور یہی حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، شہادت کا رد ہوجانا یا کردینا یہ الگ امر ہے، اور گناہ ہونا یا نہ ہونا یہ الگ معاملہ ہے۔ کوئی کام فی نفسہ گناہ نہ ہو اور اُس کا مرتکب فاسق قرار دیدیا جائے ایسا فیصلہ ناواقف رضاخانی بھائیوں کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے، حقیقی اہل سنت والجماعت اہل حق میں سے کوئی شخص ایسی نامناسب بات زبان سے نہیں نکال سکتا، رہا یہ عامیانہ اشکال کہ فاسق نہ ہونے کے باوجود گواہی کیوں رد کردی جائے گی سو اس کا جواب یہ ہے کہ رد شہادت کے لیے فاسق ہونا لازم نہیں، حضرات فقہائے کرام نیں جہاں راستہ میں کھانے پر شہادت کے رد ہونے کی صراحت کی ہے وہیں گناہ کے نہ ہونے کی بھی تصریح ہے اور اسی مقام پر ایک عجیب واقعہ رد شہادت کا بھی لکھا ہے، فتاوی البحر الرائق میں ہے: والمراد بالأکل علی الطریق والبول بأن یکون بمرئ من الناس ․․․ وأشار الموٴلف بما ذکرہ أن ما یخل بالمروء ة یمنع قبولہا وإن لم یکن محرمًا اھ ․․․ ومن ذلک ما حکي أن الفشل ابن الربیع شہد عند أبي یوسف رحمہ اللہ فرد شہادتہ فشکاہ إلی الخلیفة وقال الخلیفة إن وزیري دین لا یشہد بالزور فَلِمَ رددت شہادتہ قال لأني سمعتہ یومًا قال للخلیفة [أنا عبدک] فإن کان صادقًا فلا شہادة للعبد وإن کان کاذبًا فکذلک فعذرہ الخلیفة زاد في فتح القدیر بعدہ والذي عندي أن رد أبي یوسف شہادتہ لیس للکذبة لأن قول الحُر للغیر أنا عبدک إنما ہو مجازٌ باعتبار معن القیام بخدمتک وکوني تحت أمرک ․․․ اھ (۷/۹۲) خیریت ہوئی کہ رضاخانی بھائیوں کے ہاتھ یہ واقعہ اور بارت نہ لگی ورنہ حضرت امام ابویوسف، بادشاہ اور وزیر نیز صاحب فتح القدیر رحمہم اللہ کے متعلق نہ جانے کیا کیا حکم لگا بیٹھتے۔ اصل یہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نصائح فرمارہے تھے اسی ضمن میں فرمایا کہ علماء کو عام لوگوں کے نزاعی معاملات میں آج کل فیصلہ کرنے سے حتی المقدرت بچنا چاہیے، پھر اس کی مصالح بیان فرمائیں اور اس کے بعد وہ ملفوظ ارشاد فرمایا کہ جو آپ نے اور رضاخانی سائل نے ملحوظ رکھا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند