• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 65263

    عنوان: میت کو قبر میں کس طرح لٹانا چاہیے؟

    سوال: میّت کو قبر میں چیت لیٹا کر (یعنی چھاتی آسمان کی طرف ) اور چہرہ قبلہ روخ کر کے دفن کرنا سنّت نبی کے خلاف ہے ؟ میّت کو قبر کی دیوار کے ساتھ لگا کر قبلہ روخ کر دیا جائے اور اگر دیوار کے ساتھ لگانا ممکن نا ہو تو میّت کی کمر نیچے مٹی کے ڈھلے لگا کر میّت کو قبلہ روخ کر دیا جائے۔ مہر بانی فرما کر قران شریف اور حدیث مبارک کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 65263

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 753-758/N=8/1437 سنت یہ ہے کہ میت کو قبر میں پورے طور پر دائیں کروٹ لٹاکر چہرہ قبلہ کی طرف کیا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی  کو بنی عبد المطلب کے کسی شخص کے انتقال پر اسی کا حکم فرمایا تھا اور چت لٹانے سے منع فرمایا تھا، اور ابو داود شریف میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت الحرام (کعبة اللہ) تم لوگوں کا قبلہ ہے زندگی میں بھی اور انتقال کے بعد بھی؛ اس لیے میت کو پورے طور پر دائیں کروٹ لٹاکر چہرہ قبلہ کی طرف کیا جائے، چت لٹاکر صرف چہرہ قبلہ کی جانب کردینے پر اکتفا نہ کیا جائے؛ کیوں کہ صرف چہرہ قبلہ کی طرف کرنا اور دائیں کروٹ نہ لٹانا خلاف سنت اور خلاف افضل ہے، (ویوجّہ إلی القبلة علی جنبہ الأیمن) بذلک أمر النبي صلی اللہ علیہ وسلم، وفي حدیث أبي داود(سنن أبي داود، کتاب الوصایا، باب ماجاء فی التشدید فی أکل مال الیتیم، ص ۳۹۷، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند): البیت الحرام قبلتکم أحیاء وأمواتاً (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في حملھا ودفنھا، ص ۶۰۹، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ، قولہ: ”ویوجہ إلی القبلة“ وجوباً کما فی الدر أو استناناً کما في ابن أمیر حاج الخ، قولہ: ”بذلک أمر النبي صلی اللہ علیہ وسلم“ علیاً لما مات رجل من عبد المطلب فقال: یا علي! استقبل القبلة استقبالاً، وقولوا جمیعاً: ”بسم اللّٰہ وعلی ملة رسول اللّٰہ“ ، وضعوہ لجنبہ ولا تکبوہ علی وجہہ ولا تلقوہ علی ظہرہ، کذا في الجوہرة (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح) ، (ویوجّہ إلی القبلة علی جنبہ الأیمن) للسنة، بذلک أمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وفي حدیث أبي داود: ”البیت الحرام قبلتکم أحیاء وأمواتاً“ (إمداد الفتاح، ص: ۶۰۰، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند) ، ویوضع في القبر علی جنبہ الأیمن مستقبل القبلة، کذا في الخلاصة۔ (الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون فی الجنائز، الفصل السادس فی القبر والدفن والنقل من مکان إلی آخر۱: ۱۶۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، ویوضع فی القبر علی شقہ الأیمن متوجہا إلی القبلة۔ (الفتاوی التاتارخانیة، کتاب الصلاة، الفصل الثانی والثلاثون، الجنائز، القبر والدفن۳: ۹۶۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، ویوجہ إلیہا وجوباً وینبغي کونہ علی شقہ الأیمن۔ (الدر المختار مع د المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة ۳: ۱۴۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔ قولہ: ”ووجّہ إلی القبلة“ ، بذلک أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ویکون علی شقہ الأیمن۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، فصل: السلطان أحق بصلاتہ علیہ ۲: ۳۳۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔ نیز امداد الفتاوی (۱: ۷۱۲، ۷۱۳، سوال: ۶۴۲، ۶۴۳، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ، فتاوی محمودیہ (۹: ۶۰، ۶۱، سوال: ۴۱۸۷، ۴۱۸۸، مطبوعہ: ادارہٴ صدیق ڈابھیل) ، احسن الفتاوی (۴: ۲۳۴، ۲۳۵، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی) اور کفایت المفتی جدید (۳: ۴۸، مطبوعہ: مکتبہ دار الاشاعت کراچی) وغیرہ دیکھیں۔ فقط واللّٰہ تعالی أعلم۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند