عبادات >> احکام میت
سوال نمبر: 610015
سرکار سے زیادہ زمین منظور کرانے کے لیے پورے قبرستان کو ہم وار کرنے کا حکم
مسلم سنت جماعت سد لگاہ بیلگام کر نائک، کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے متعلق : ہمارے گاؤں میں ایک قبرستان ہے جو کہ بہت ہی پرانا ہے اور ابھی بھی مستعمل ہے جو کہ کل رقبہ ۹ ، ایکڑ ہے اس میں سے فقط ۲ ، ایکڑ زمین مسلم سنت جماعت کے نام تھی اور ۲۰ گنٹھے میں عید گاہ تھا بقیہ جگہ بھی مسلم سنت جماعت کے نام پر ہو اس لئے پنچایت نے کہا کہ بقیہ قبرستان کی پوری زمین کو ہموار کر یں تو مسلم سنت جماعت کے نام پوری زمین ہو سکتی ہے ۔ لہذا ہم نے قبرستان کو ہموار کر دیا کوئی نشانی بھی نہیں چھوڑی جب تمام قبر یں ایک جیسی ہو گئی تو کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ نے جو یہ کام کیا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ اور ہماری رائے بھی نہیں لی گئی حالانکہ مفتی صاحب اس قبرستان میں تین دن تک کام چلتار ہاتب کسی نے اعتراض نہیں کیا جب کام مکمل ہو گیا تو اعتراضات کر نے لگ گئے ہیں حالا نکہ مفتی صاحب ہم نے جو کام کیا ہے وہ قبرستان اور گاؤں والوں کے حق میں مفید ہی مفید ہے اور الحمد اللہ ہم اس مقصد میں کامیاب بھی ہو گئے یعنی کاغذات مکمل ہو گئے اور اب وہ جگہ مسلمانوں کے حق میں محفوظ ہو گئی ہے اب سوال یہ ہے کہ ہم نے جو یہ کام کیا کہ تمام قبروں کو ہم نے لیول یعنی زمین کے برابر کر دیا یہاں کوئی قبر تھی ایسی کوئی نشانی بھی نہیں چھوڑی کیا ہمارا یہ کام کر نا درست تھا یا نہیں ؟ اور لوگوں کا اعتراض کہاں تک صحیح ہے اور ہم نے جو ایک کام کیا ہے کیا ہمارا یہ فعل ہم کو گنہگار بناۓ گا ؟ برائے مہربانی ان سوالات کے جوابات دے کر ہماری ہمت افزائی فرمائیں اور ہماری رہنمائی بھی فرمادیجئے۔
جواب نمبر: 610015
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 540-431/H-Mulhaqa=8/1443
جب تک قبر میں مردہ موجود رہے، یعنی: گل سڑکر اور بوسیدہ ہوکر مٹی میں تبدیل نہ ہوجائے ، قبر کا احترام ضروری ہوتا ہے، یعنی: اُس پر بیٹھنا اور چلنا وغیرہ جائز نہیں ہوتا، اور قبر کی شناخت عام طور پر قبر کے نشانات سے ہوتی ہے، اور جب نئی وپرانی سب قبروں کے نشنات مٹادیے جائیں تو قبرستان آنے والوں سے نئی قبروں کی بے احترامی عین ممکن ہے، پس صورت مسئولہ میں آپ کو جو کچھ کرنا تھا،نئی قبروں کے نشانات باقی رکھنے کے ساتھ کرنا تھا، آپ کو نئی قبروں کے نشانات بالکل ختم نہیں کرنا چاہیے تھا اور لوگوں کا اعتراض آپ پر بجا ہے؛ البتہ اب بھی جہاں جہاں نئی قبروں کا یقین یا غالب گمان ہو، وہاں نشانات بنادیے جائیں؛ تاکہ سب کا نہ سہی، کچھ قبروں کا احترام محفوظ ہوجائے ۔
قال الزیلعي: ولو بلي المیت وصار تراباً جاز دفن غیرہ في قبرہ وزرعہ والبناء علیہ اھ ……فالأولی إناطة الجواز بالبلا؛ إذ لا یمکن أن یعد لکل میت قبر لا یدفن فیہ غیرہ وإن صار الأول تراباً، لا سیما فی الأمصارالکبیرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبور السھل والوعر، علی أن المنع من الحفر إلی أن یبقی عظم عَسِرٌ جداً إلخ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۳: ۱۳۸، ۱۳۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۵: ۳۳۵، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔
کما جاز زرعہ والبناء علیہ إذا بلي وصار تراباً۔ زیلعي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۳: ۱۴۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۵: ۳۵۴، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔
قولہ: ”کما جاز زرعہ“: أي: القبر…، وکذا یجوز دفن غیرہ علیہ کما فی الزیلعي أیضاً (رد المحتار)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند