• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 600857

    عنوان: جنازے کی نماز میں دونوں ہاتھ کب چھوڑنا چاہیے؟

    سوال:

    (۱) میرا سوال یہ ہے کہ جنازے کی نماز میں دونوں ہاتھ کب چھوڑنا ہے؟

    (۲) جنازے کی نماز میں جو ثنا پڑھتے ہیں اس میں وجل ثناؤک پڑھتے ہیں وہ حدیث سے یا سنت سے ثابت ہے؟ پڑھنا چاہئے یا نہیں؟

    (۳) جنازے کی نماز میں جو دعا پڑھی جاتی ہے عام طورپر ، اس کے علاوہ کوئی اور دعا ہے تو بتادیجئے، اگر وہ دعا کسی کو یاد نہیں ہے تو وہ کونسی دعاپڑھے؟

    (۴) جنازے کی نمازمیں امام چاروں تکبیروں میں اگر ہاتھ اٹھائے تو کیا نماز صحیح ہوئی یا نہیں؟ یا دوبارہ پڑھی جائے گی؟

    جواب نمبر: 600857

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 145-131/D=04/1442

     (۱) نماز جنازہ میں چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے بھی ہاتھ چھوڑنا درست ہے، اور مع السلام بھی اور بعد السلام بھی، اس میں جو اختلاف ہے وہ صرف اولویت کا ہے۔ (امداد الفتاوی: ۳/۳۸۱جدید، فتاوی محمودیہ: ۸/۵۵۶)۔

    (۲) حدیث میں یہ لفظ تلاش کرنے سے نہیں مل سکا، لیکن پہلی تکبیر کے بعد سنت اللہ کی حمد بیان کرنا ہے، اور اس کے لئے کوئی خاص صیغہ متعین نہیں ہے، بلکہ جس صیغے سے بھی حمد کی جائے سنت حاصل ہو جائے گی۔ لہٰذا ”وجل ثناوٴک“ کے اضافے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

    في رد المحتار: مقتضی ظاہر الروایة حصول السنة بأي صیغة من صیغ الحمد، فیشمل الثناء المذکور لاشتمالہ علی الحمد ۔ (۳/۱۱۰، ط: زکریا)

    (۳) دعاء یاد نہ ہو تو دعاء یاد کرنی چاہئے۔ جب تک یاد نہ ہو تو خاموش رہے یا : اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُوٴمِنِیْنَ وَالْمُوٴمِنَاتِ پڑھتا رہے۔

    (في رد المحتار: من لم یحسن الدعاء بالمأثور، یقول: اللہم اغفر لنا ولوالدینا ولہ للموٴمنین والموٴمنات (۳/۱۱۰) نیز آپ کے مسائل: ۴/۳۸۸جدید)۔

    (۴) نماز تو ہوگئی؛ البتہ ایسا نہیں کرنا چاہئے، کیوں کہ معتمد و مختار قول یہ ہے کہ ہاتھ صرف پہلی تکبیر میں اٹھانے چاہییں۔

    في الدر: ویرفع یدیہ فی الأولی فقط، وقال أئمة بلخ: في کلہا، وفي الرد: والأول ظاہر الروایة کما في البحر ۔ (الدر مع الرد: ۳/۱۰۹)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند