عبادات >> احکام میت
سوال نمبر: 40103
جواب نمبر: 40103
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 555-535/N=8/1433 کسی بھی صحابی کو برا بھلا کہنا اور ان کو تنقید وملامت کا نشانہ بنانا یقینا موجب فسق وضلالت ہے؛ لیکن اس سے آدمی کافر ومرتد نہیں ہوتا بشرطیکہ اس سب وشتم وغیرہ کو بعض اہل تشیع کی طرح حلال یا کارثواب نہ سمجھتا ہو کذا فی الدر والرد (کتاب الجہاد باب المرتد: ۶/۳۷۶-۳۷۸، ط: زکریا دیوبند) وقال في تنبیہ الولاة والحکام (مجموعہ رسائل ابن عابدین: ۱/۳۶۷) عن المنلا علی القاری: ... وأما من سب أحدا من الصحابة فہو فاسق مبتدع بالإجماع إلا إذا اعتقد أنہ مباح أو یترتب علیہ ثواب کما علیہ بعض الشیعة أو اعتقد کفر الصحابة فإنہ کافر بالإجماع... إھ اس لیے آپ کے والد صاحب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کی وجہ سے کافر قرار نہ دیے جائیں گے۔ اور انتقال سے پہلے جب انھوں نے توبہ کرلی تو اس کا گناہ بھي ختم ہوگیا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ رواہ ابن ماجہ والبیہقي في شعب الإیمان (مشکاة شریف کتاب الدعات باب الاستغفار والتوبة الفصل الثالث، ص:۲۰۶) اس لیے آپ اپنے والد صاحب کے سلسلہ میں اللہ سے حسن ظن رکھتے ہوئے مطمئن رہیں اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت اور ترقی درجات کی دعا کرتے رہیں۔ اللہ انھیں مغفرت تامہ اور ترقی درجات سے سرفراز فرمائیں۔ آمین
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند