• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 32600

    عنوان: میّت کے سرپرپگڑیپٹکا باندھناشرعًاکس طرح ہے؟

    سوال: (۱) مردے کو غسل مرنے کے فورًا بعددیاجائیگا یاجب جنازے کاوقت قریب ہوجائے،ہمارے ہاں دومرتبہ غسل دیاجاتاہے جوبقول شیخ الاسلام صاحب کے غلط ہے(فتاویٰ عثمانی جلداوّل صفحہ نمبر مردے کودومرتبہ کی رسم واجب الترک ہے) لیکن لوگ اسکی وجہ یہ بیان کرتے ہیکہ ایک غسل مردے کے پاس سبق پڑھنے کا اوردوسراجنازے کاتواس کا جواب کیا ہوگا؟ (۲)میّت کے سرپرپگڑیپٹکا باندھناشرعًاکس طرح ہے؟ (۳)امام صاحب کامصلیٰ پرآنے سے پہلے مقتدیوں کاکھڑاہوجانایااقامت شروع کرناشرعًاکس طرح ہے؟ (۴)کسی مسلمان کیلئے دوسرے مسلمان رشتہ دار(محرم یاغیرمحرم)یاغیررشتہ دارسے بچہ لینایاآپنابچہ دوسرے رشتہ دار(محرم یاغیرمحرم)یاغیررشتہ دار کودیناجوکہ بعدمیں جس نے لیاہے یاجس کودیاہے اسی کاہوجاتاہے جائزہے یاناجائز؟ (۵)صاحب بدعت کے ساتھ دعاوسلام یاتعلقات رکھنابغرض دعوت وتبلیغ شرعًاکس طرح ہے؟ (۶)یوفون ،جیز،وارد،زونگ اورٹیلی نارکاایڈوانس بیلنس جب منگوایاجاتاہے بعدمیں نئے بیلنس ڈالنے پرجوکٹوتی ہوتی ہے اسکی شرعی حیثیت کیاہے؟ (۷)قبر پختہ کرتے وقت اما م الحی کو بُلا کر اس سے دُعا کروانا اور مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟

    جواب نمبر: 32600

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(م): 1063=1063-7/1432 (۱) مردے کی تجہیز وتکفین میں تاخیر نہ کرنی چاہیے، اور اچھا یہی ہے کہ جنازے سے قریب تر وقت میں غسل دیا جائے، میت کو دو مرتبہ غسل دینے کی مذکورہ توجیہ بھی غلط ہے۔ (۲) مکروہ ہے۔ (۳) امام صاحب اگر پچھلی صف سے آرہے ہیں تو جس صف سے گزرجائیں اس صف والوں کو کھڑا ہوجانا چاہیے، امام صاحب کے آنے سے پہلے کھڑے ہوکر مقتدیوں کا انتظام کرنا مکروہ ہے، جب امام صاحب کو آتے ہوئے دیکھ لیں تو اقامت شروع کی جاسکتی ہے۔ (۴) اپنا بچہ دوسرے کی تربیت میں دینا یا دوسرے کا بچہ اپنی پرورش میں لینا ناجائز نہیں ہے، لیکن اس کی وجہ سے لینے والا اس کا حقیقی باپ نہیں ہوجائے گا اور نہ وہ بچہ (متبنّیٰ) صلبی بیٹا کہلائے گا۔ (۵) اگر خود بدعت میں ملوث ہونے کا اندیشہ نہ ہو، تو بغرض دعوت وتبلیغ اس کے ساتھ سلام ودعا رکھنے میں مضائقہ نہیں۔ (۶) مذکورہ الفاظ کی فصاحت کے ساتھ سوال کیجیے۔ (۷) قبر کو پختہ بنانا ہی ممنوع ہے او راس وقت امام صاحب کو بلواکر دعا کرانے اور مٹھائی تقسیم کرنے کی رسم بھی غلط اور قابل ترک ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند