عبادات >> احکام میت
سوال نمبر: 28019
جواب نمبر: 28019
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 179=000-1/1432
(۱) میت کے چہرہ پر مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کی مٹی لگانا بے اصل ہے، شرعاً ثابت نہیں، اسے ترک کردینا چاہیے۔
(۲) میت کو قبر میں لٹانے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کو قبر میں داہنی کروٹ پر روبقبلہ لٹایا جائے اور میت کی طرف مٹی یا ڈھیلے سے تکیہ لگادیں تاکہ میت داہنی کروٹ پر قائم رہے، پشت کی جانب لوٹ نہ جائے، ویوجہ إلیہا (القبلة) وجوبًا․ وینبغي کونہ علی شقہ ا لأیمن (درمختار) ووجہہ أن ظاہر التسویة بین الحیاة والمماة في وجوب القبلة، لیکن صرح في التحفة بأنہ سنة (شامی: ۳/۱۴۱ زکریا) چٹ لٹانے اور صرف منہ قبلہ کی طرف کرنے کا جو عام رواج ہوگیا ہے، وہ سنت متوارثہ کے خلاف ہے اور اس طرح صرف منھ قبلہ کی طر ف کرنے سے بعد میں منھ کے قبلہ سے پھرنے کا اندیشہ رہتا ہے؛ اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہیے اورجو مسنون طریقہ ہے اسے رائج کرنا چاہیے۔
(۳) اگر شہادت کی انگلی سے بغیر سیاہی کے میت کی پیشانی پر غسل کے بعد تکفین سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم، اور سینہ پر کلمہ طیبہ وغیرہ لکھ دے تو اس کی گنجائش ہے، نعم نقل بعض المحشین عن فوائد الشرجی أن مما یکتب علی جبہة المیت بغیر مداد بالأصبع المسبحة بسم اللہ الرحمن الرحیم وعلی الصدر لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ، وذلک بعد الغسل وقیل التکفین․ (شامي: ۳/۱۵۷زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند