• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 2383

    عنوان:

    کیا بیمار کی عیادت فرض کفایہ ہے؟

    سوال:

    (۱) کیا بیمار کی عیادت فرض کفایہ ہے؟

    (۲) کسی دوسرے مذہب سے لینے کی شرائط کیا ہیں؟ کیا اس سلسلے میں (جب دوسرے مذہب سے کچھ لینا ہو) اپنے اور اس مذہب کے علماء سے رائے لینا ضروری ہے؟ بہت سے عام لوگ اس زمانے میں مذاہب کی دلیل کے درپے ہوتے ہیں اور ایک مذہب کی دلیل کا دوسرے مذہب کی دلیل سے تقابل کرتے ہیں اور فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ ان میں سے کون اقوی ہے۔ کیا آپ اس مسئلہ پر کچھ روشنی ڈال سکیں گے۔

    جواب نمبر: 2383

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوی: 466/462=د)

     

    (

    ۱) جی ہاں فرض کفایہ ہے اور ایک قول کے مطابق واجب علی الکفایہ یعنی بعض لوگ عیادت کرلیں گے تو باقی لوگوں سے حق عبادت ساقط ہوجائے گا۔ ایک حدیث میں آیا ہے عودو المریض (رواہ البخاری، مشکوٰة) قال العلي القاري في المرقاة وھذہ الأوامر للوجوب علی الکفایة فإذا امتثل بعض سقط عن الباقین اور حدیث حق المسلم علی المسلم خمس کے تحت لکھتے ہیں أي خمس خصال وکلھن فروض کفایة (مرقاة: ج۳ ص۳۴۶)

    (۲) ایک امام کی تقلید کرتے ہوئے کسی مسئلہ میں دوسرے امام کی رائے کو لینا درست نہیں ہے، اس کو تلفیق کہتے ہیں اور تلفیق باجماع امت باطل ہے۔ مذاہب کی دلیل مانگنا عامی آدمی کو اس کا حق نہیں ہے اور پھر دلائل میں تقابل کرکے اپنی فہم ناقص سے فیصلہ کرنا اور بھی برا ہے۔ کسی مسئلہ کی دلیل بسا اوقات صرف ایک حدیث نہیں ہوتی ہے بلکہ احادیث کے پورے ذخیرہ اور صحابہٴ کرام کے تعامل اور ان کے آثارکو پیش نظر رکھ کر مجتہد مسئلہ کا حکم نکالتا ہے اور اُن وجوہ ترجیح کی بنیاد پر جو مسلم ہیں کسی مسئلہ کو ترجیح دیتا ہے اب ان دلائل میں غور کرنا اور اُن کی تہہ تک پہنچنا ہرکس و ناکس کا کام نہیں ہے، لہٰذا جو لوگ اس طرح کا طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں اور قرآن پاک کی ہدایت ﴿فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ﴾ اگر تمھیں نہیں معلوم تو اہل علم سے دریافت کرلو۔ کے خلاف کرتے ہیں۔ ان کا طریقہ غلط ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند