• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 23159

    عنوان: اگر کوئی اپنے کسی رشتہ دار کی قبر کے پاس ایک خاص جگہ میں اپنی تدفین کے لیے وصیت کرے تو کیا یہ جائز ہے؟جب کہ دوسروں کو کوئی اعتراض نہ ہو۔کیا کسی نیک شخص کی قبر کے پاس دفن ہونے پر فائدہ ہوگا؟ 

    سوال: اگر کوئی اپنے کسی رشتہ دار کی قبر کے پاس ایک خاص جگہ میں اپنی تدفین کے لیے وصیت کرے تو کیا یہ جائز ہے؟جب کہ دوسروں کو کوئی اعتراض نہ ہو۔کیا کسی نیک شخص کی قبر کے پاس دفن ہونے پر فائدہ ہوگا؟ 

    جواب نمبر: 23159

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 974=711-7/1431

    ایسی وصیت جائز ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحب زادے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی جائے: عن عمر وبن میمون الأودي قال رأیت عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ قال یا عبد اللہ بن عمر إذہب إلی أم الموٴمنین عائشة رضي اللہ عنہا فقل یقرأ عمر بن الخطاب علیک السلام ثم سلہا أن أدفن مع صاحبي․․․․ وفیہ قال ما کان شيٴ أہم إلی من ذلک المضجع فإذا قبضت فاحملوني ثم سلموا ثم قل یستأذن عمر بن الخطاب فإن اذنت فادفنوني (بخاري: ۱/۱۶۶/أبواب الجنائز) البتہ ورثا پر ایسی وصیت کا پوری کرنا لازم نہیں۔ والفتوی علی بطلان الوصیة بغسلہ والصلاة علیہ (درمختار) وفي الشامي: وکذلک تبطل لو أوصی بأن یکفن في ثوب کذا أو یدفن في موضع کذا کما عزاہ إلی المحیط (شامي: ۳/۱۲۲، باب صلاة الجنازة، ط: زکریا دیوبند) 
    (۲) جی ہاں نیک آدمی کی قبر کے پاس دفن ہونے سے مردے کو فائدہ پہنچتا ہے: قال العیني في شرح الحدیث المتقدم فیہ الحرص علی مجاورة الصالحین في القبور طمعًا في إصابة الرحمة إذا نزلت علیہم وفي دعاء من یزورہم من أہل الخیر (عمدة القاري: ۸/۲۳۰) قال في الہندیة: والأفضل الدفن في المقبرة التي فیہا قبور الصالحین (عالم گیري: ۱/۱۶۶، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند