• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 21193

    عنوان:

    (۱)کیا فرض اعمال کا ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ (۲) اگر کوئی یہ نیت کرلے کہ میں اپنی ساری پچھلے اعمال اور ہونے والے اعمال (بشمول تمام فرائض اور واجبات) یعنی اپنے سارے اعمال کا ثواب فلاں کو یا فلاں فلاں کو یا سارے مسلمانوں کو بخشتا ہوں جو حضرت آدم سے لے کر آنے والے آخری مسلمان تک، کیا یہ صحیح ہے؟ (۳) کیا ایسا کرنے سے میرے اعمال کے ثواب میں کچھ کمی تو نہیں ہوگی؟(۴) کیا اس ایصال ثوا بکرنے کا مجھے کچھ ثواب ملے گا؟ (۵) کیا یہ بات صحیح ہے کہ اگر ایک شخص زید ایک عمل کرکے اس کا ثواب اگر ایک شخص عمر کو بخش دے، تو عمر کو سارا ثواب ملتا ہے، لیکن اگر بہت سوں کو وہی ثواب بخش دے تو ثواب تقسیم ہوکر ہرایک کو پہلے کے مقابلے میں کم ثواب ملتا ہے، چنانچہ عمر کو اب کم ثواب ملے گا؟

    سوال:

    (۱)کیا فرض اعمال کا ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ (۲) اگر کوئی یہ نیت کرلے کہ میں اپنی ساری پچھلے اعمال اور ہونے والے اعمال (بشمول تمام فرائض اور واجبات) یعنی اپنے سارے اعمال کا ثواب فلاں کو یا فلاں فلاں کو یا سارے مسلمانوں کو بخشتا ہوں جو حضرت آدم سے لے کر آنے والے آخری مسلمان تک، کیا یہ صحیح ہے؟ (۳) کیا ایسا کرنے سے میرے اعمال کے ثواب میں کچھ کمی تو نہیں ہوگی؟(۴) کیا اس ایصال ثوا بکرنے کا مجھے کچھ ثواب ملے گا؟ (۵) کیا یہ بات صحیح ہے کہ اگر ایک شخص زید ایک عمل کرکے اس کا ثواب اگر ایک شخص عمر کو بخش دے، تو عمر کو سارا ثواب ملتا ہے، لیکن اگر بہت سوں کو وہی ثواب بخش دے تو ثواب تقسیم ہوکر ہرایک کو پہلے کے مقابلے میں کم ثواب ملتا ہے، چنانچہ عمر کو اب کم ثواب ملے گا؟

    جواب نمبر: 21193

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 680=225tl-5/1431

     

    جی ہاں! نوافل کی طرح فرض اعمال کا بھی ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے والظاہر أنہ لا فرق بین أن ینوی بہ عند الفعل للغیر أو یفعلہ لنفسہ ثم یجعل ثوابہ لغیرہ وأنہ لا فرق بین الفرض والنفل (شامي: ۳/۱۵۲، ط: زکریا دیوبند)

    (۲) یہ بھی درست ہے، ایسا کرسکتے ہیں: وقد نقل عن جماعة أنہم جعلوا ثواب أعمالہم للمسلمین وقالوا نلقی اللہ تعالی بالفقر والإفلاس والشریعة لا تمنع من ذلک (شامي: ۳/۱۵۲، ط زکریا دیوبند)

    (۳) (۴) ایصالِ ثواب کرنے والے کو پورا ثواب ملتا ہے، ایصالِ ثواب کرنے کی وجہ سے اس کے اجر میں کمی نہیں کی جائے گی۔ الأفضل لمن یتصدق نفلاً أن ینوی لجمیع الموٴمنین والموٴمنات لأنہا تصل إلیہم ولا ینقص من أجرہ شيء․․․ وہو مذہب أہل السنة والجماعة (شامي: ۳/۱۵۱ ط: زکریا دیوبند)

    (۵) کئی کو ایصالِ ثواب کرنے کی صورت میں اصل اور ضابطہ یہی ہے تقسیم ہوکر ثواب پہنچے، البتہ علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ ایسی صورت میں بھی ثواب پورا پورا پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے وسعتِ فضل پر نظر کرتے ہوئے یہ قول مناسب ہے: قلت: لکن سئل ابن حجر المکي عما لو قرأ لأہل المقبرة الفاتحة ہل یقسم الثواب بینہم أو یصل لکل منہم مثل ثواب ذلک کاملاً فأجاب بأنہ أفتی جمع بالثاني وھو اللائق بسعة الفضل (شامي: ۳/۱۵۳، ط زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند