• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 177224

    عنوان: قبر کو منتقل کرنا

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک قبرستان جو ایک علاقہ کے مُردوں کیلئے وقف تھا،اور اس قبرستان میں پیدل چلنے کا راستہ بھی تھا بعدمیں راستے کی توسیع ہوئی،ایک قبر راستے میں آگئی اور دوران توسیع رہ گئی،کیونکہ ورثاء منتقلی پر راضی نہیں تھے،اب ورثاء کہتے ہیں کہ اگر شرعاً کوئی صورت نکلتی ہے تو وہ قبرکو اس جگہ سے منتقل کریں ۔تو اس قبرکو منتقل کرنا کیسا ہے؟نیزاگرقبر منتقل نہ کرے تو حکومت سے اس کے خراب اور مسمار کرنے کا خدشہ ہوگا۔یاد رہے کہ یہ قبر 35سال پراناہے۔

    جواب نمبر: 177224

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:705-198T/SN=8/1441

    سوال میں یہ واضح نہیں ہے کہ یہ عام راستہ تھا یا قبرستان کا راستہ تھا، جو مردہ لے جانے یا زیارت کے لیے جانے آنے میں استعمال ہوتا تھا؟ نیز توسیع کے وقت قبر کا لحاظ کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ بھی سوال سے واضح نہیں ہے۔ بہرحال قبر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا شرعا جائز نہیں ہے؛ اس لیے جو کچھ ہوا سو ہوا، پس آئندہ اس قبر کی حفاظت کی کوشش کی جائے، اگر کبھی راستے میں شامل کرنے کی ضرورت ہو تو کسی معتبر مفتی سے حکم شرعی معلوم کرلیا جائے۔

    وأما بعد الدفن فلا یجوز إخراجہ حتی قالو: لو أن امرأة مات ولدُہا ودفن ببلد غیر بلدہا، وہي لا تصبر، وأرادت نبشَہ ونقلَہ إلے بلدہا لا یباح لہا ذلک، ولا یباح نبشہ بعد الدفن أصلا إلا لما تقدم من سقوط مال فیہ أو کون الأرض في حق الغیر، وحینئذ إن شاء ذلک الغیر أخرجہ، إن شاء سوی القبر وزرع فوقَہ، وجوز البعض النقل بعد الدفن استدلالا بما نقل أن یعقوب -علیہ السلام- بعد ما مضی علیہ زمان نُقِل من مصر إلی الشام لیکون مع آبائہ، والصحیح الأول؛ لأن شرع من قبلنا إذا لم یقص اللہ أو رسولہ علینا من غیر تغییر لا یکون شرعا لنا؛ لا یجوز الاستدلال بہ، وفي القنیة مقابر بلغ إلیہا حطم جیحون لا یجوز نقلہم إلی موضع آخر․ (کبیري، ص: ۶۰۷،ط: در سعادت، ترکی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند