عنوان: دو منزلہ قبر كا حكم كیا ہے؟
سوال: محترم مکرم علماء کرم: اللہ تعالیٰ آپ کا وقت اور کوشش قبول فرماکرئے ۔سوال:آپ کی خدمت میں ایک اہم سوال ارسال کیا جارہا ہے ،فی الحال ہمارے لندن شہر مین قبرستانوں کی جگہ کمی ہور ہی ہے اور جگہ ختم ہوتی جارہی ہے ، دفن کرنے کی جگہ تلاش کرنا ہر سال زیادہ سے زیادہ مشکل ہو تا جارہاہے ، اب تک ہم کونسل کا قبرستان استعمال کررہے ہیں اور آج تک شہر میں صرف مسلمانوں کے دو خاص قبرستان کھلے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ کو نسل کی اکثر جگہ بڑی حد تک بھر چکی ہے ، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لندن شہر میں دفن کرنے کی قیمت ہر سال مہنکگی ہورہی ہے ،لندن کے بعض علاقہ میں ایک قبر کی قیمت 5000 تک پہنچ چکی ہے ، جو کہ عام مسلمانوں کیلئے سخت دشواری بلکہ نا ممکن ہے ۔اور اس مشکلات میں جگہ کی کمی کے علاوہ موجودہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے اسباب بھی داخل ہیں ،اس لئے ہم نے علماء اور مفتی حضرات سے دینی اور شرعی مفید مشورہ حاصل کرنے کے بعد اب قبر کو \'دبل بیرل\' یعنی دو منزل والی قبر( ایک ہی جگہ میں منزل بنا کر دو کو میت دفن کررہے ہیں)،طریقہ اختیار کیا ہے جسے دگنا مسلمانوں کیلئے استعمال کرنے میں مدد ملی اور اس مستقبل میں آنے والے مسلمانوں کیلئے آسان اور مفید ہوں گے ، ان شا اللہ۔الحمد للہ اس طریقے سے ہم نے لا وارث مسلمانوں کیلئے مدد کرنے میں بہت مفید پا یا ہے ،بہر حال اب مشکل یہ ہے کہ …. عوام الناس میں بعض لوگ اس طریقہ کے بارے میں فکر مند میں اور اطمنان چاہتے ہیں کہ شرعی اعتبار سے آیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟
جن حضرات علماء کرام سے ہم نے مختلف مواقع پر بات کی ہے ، اور ان علماء اور مفتیان کرام کی طرف سے زبانی شرعی طور پر موجودہ حالت کو دیکھ کر جائز ہو نے پر مطمئن ہیں۔
طریقہ :ایک شخص چھ فٹ (6.6ft) کی گہرائی قبر کو کھودتے ہیں اس طور پر کہ وہ مستقبل میں کسی اور کیلئے بھی استعمال کیا جائے گا،پہلے شخص کو (6.6ft) کی گہرائی میں عام طریقہ کے مطابق دفن کر کے قبر کی شکل میں اوپر تک مٹی بر دیا جاتا ہے ،جب دوسرے شخص کا کسی وقت انتقال ہو جائے تو اس قبر میں ہی صرف (4.5ft) تک کھودا جاتا ہے اور پھر دوسری لاش کو اس میں دفنا دی جاتی ہے ،اور اس وقت پہلی لاش کی جگہ تک نہیں کھولا جاتا۔
نوٹ:ان دو لاشوں کے درمیان مٹی کی ایک پردہ رکاوٹ (barrier) تو ہر حال میں رہتا ہے ۔ اور دوسری میت کو دفنا کے بعد بھی اس کے اوپر کم از کم تین فٹ کا مٹی واپس بھردی جاتی ہے ،اس لئے آپ علماء کرام کی خدمت میں برائے کرم اس طریقہ پر مزید مفید مشوروہ اور تحقیق چاہتے ہیں، تاکہ سب متفق طور پر مطمئن ہو جائے ۔جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب نمبر: 14625401-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 209-1460/L=1/1439
مردہ کی لاش جب تک بوسیدہ ہوکر مٹی میں نہ مل جائے اس وقت تک اس کا احترام باقی رہتاہے ،ایسی صورت میں اس پر ٹیک لگانا ،اس کو روندنا ممنوع ہے۔ عن جابررضي الله عنه قال:نہی رسو ل الله صلی اللہ علیہ وسلم أن یجصص القبوروأن یکتب علیہا وأن توطأ․(مشکوٰة:۱۴۸) وعن عمروبن حزم قال رآنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم متکئاً علی قبر فقال لا توذ صاحب ہذالقبر أو لا توذہ․(مشکوٰة:۱۴۹)اس لیے ایک مردے کو دفن کرنے کے بعد جب تک وہ بوسیدہ ہوکر مٹی میں نہ مل جائے اس وقت تک اس کے اوپر کسی اور کو دفن کرنا کراہت سے خالی نہیں،میری رائے میں اس کی بہتر شکل یہ ہوسکتی ہے کہ قبرستان کے ایک کنارے سے تدفین کا سلسلہ شروع کیا جائے اور جب اخیرمیں قبرستان بھر جائے تو امید یہی ہے کہ بالکل ابتداء میں دفن اموات کی لاشیں بوسیدہ ہوکر مٹی میں مل گئی ہوں گی ؛لہذا پھر شروع سے تدفین کا سلسلہ جاری کردیا جائے۔اور قبروں کو پختہ ہرگز نہ بنایا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند