• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 12614

    عنوان:

    میرے والد صاحب ایک بلڈر ہیں۔ ان کی دس اولاد ہیں جن میں چھ لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں۔ ان میں کے تین میرے سوتیلے بھائی ہیں دونوں ماں زندہ ہیں۔صرف میرا بڑا بھائی میرے والد کے کاروبار میں شریک ہوا اور آخرکار اس نے اس پر کنٹرول کیا۔ اس نے میرے والد کے ساتھ بہت سخت محنت کی اور ان کی مشترکہ محنت سے کاروبار میں اضافہ ہوا۔چونکہ ہمارے سوتیلے رشتہ داروں نے میرے والد کے ذہن میں بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کردی تھیں اور ان کا کینہ ورانہ کردار ثابت ہوگیا تھا اس لیے میرا بھائی یہ چاہتا تھا کہ پراپرٹی میرے والد صاحب کی موجودگی میں تقسیم ہوجائے ان کی وفات کے بعد کی تلخی اور لڑائی سے بچنے کے لیے اور اس لیے بھی تاکہ وہ دولت کا لالچی اور حریص نہ کہلائے۔ پراپرٹی ایسے تقسیم کی گئی جیسے کہ شریعت کے مطابق وراثت کی تقسیم کی جاتی ہے، میرے بھائی کو میرے والد کے ساتھ بطور پارٹنر کے کاروبار میں شریک ہونے اور ترقی دینے کی وجہ سے ایک حصہ دینے کے بعد۔میرے والد صاحب زندہ ہیں۔ ہم سے قانونی کاغذات پر دستخط بھی کرائے گئے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہم اس کے بعد کوئی دعوی نہیں کریں گے۔....

    سوال:

    میرے والد صاحب ایک بلڈر ہیں۔ ان کی دس اولاد ہیں جن میں چھ لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں۔ ان میں کے تین میرے سوتیلے بھائی ہیں دونوں ماں زندہ ہیں۔صرف میرا بڑا بھائی میرے والد کے کاروبار میں شریک ہوا اور آخرکار اس نے اس پر کنٹرول کیا۔ اس نے میرے والد کے ساتھ بہت سخت محنت کی اور ان کی مشترکہ محنت سے کاروبار میں اضافہ ہوا۔چونکہ ہمارے سوتیلے رشتہ داروں نے میرے والد کے ذہن میں بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کردی تھیں اور ان کا کینہ ورانہ کردار ثابت ہوگیا تھا اس لیے میرا بھائی یہ چاہتا تھا کہ پراپرٹی میرے والد صاحب کی موجودگی میں تقسیم ہوجائے ان کی وفات کے بعد کی تلخی اور لڑائی سے بچنے کے لیے اور اس لیے بھی تاکہ وہ دولت کا لالچی اور حریص نہ کہلائے۔ پراپرٹی ایسے تقسیم کی گئی جیسے کہ شریعت کے مطابق وراثت کی تقسیم کی جاتی ہے، میرے بھائی کو میرے والد کے ساتھ بطور پارٹنر کے کاروبار میں شریک ہونے اور ترقی دینے کی وجہ سے ایک حصہ دینے کے بعد۔میرے والد صاحب زندہ ہیں۔ ہم سے قانونی کاغذات پر دستخط بھی کرائے گئے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہم اس کے بعد کوئی دعوی نہیں کریں گے۔ہم نے کبھی کوئی بھی دعوی نہیں کیا اور چیزوں کو ایسے قبول کیا جیسے کہ وہ تھیں۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ والدین کو اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ اپنی زندگی میں تقسیم کرنے کی شکل میں برابر برابر کا معاملہ کرنا ہوتا ہے جب کہ ہمیں ہمارے بھائیوں کے بالمقابل آدھا ملا۔ کیااس کو اگر پیشگی وصیت کی تکمیل کا نام دیا جائے تو درست ہوگا؟ میں نہیں جانتی ہوں کہ میرے بھائی یا والد شرعی قوانین سے واقف تھے؟ کیا میں اس مرحلہ پر دعوی کرسکتی ہوں۔اس صورت میں اگر وہ ناواقف ہیں تو کیا میں سچائی کوچھپانے کی مجرم ہوں؟ کیا یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنی تینوں بہنوں کو اس کے بارے میں بتاؤں کہ ان کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ہمارا ایک مذہبی تبلیغی گھرانہ ہے لیکن معاملات بہت ہی خراب ہیں۔ مجھے قانون کئی برسوں سے معلو م ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمیں جو ہمارے مقدر میں تھا مل گیا۔ لیکن اب میں محسوس کرتی ہوں کہ اگر ہم سچائی نہیں بول سکتے ہیں مذہبی گھرانے میں تو تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا کیا فائدہ ہے؟اور میں اس کے بارے میں بولوں گی تو اس سے بہت زیادہ تلخی بڑھے گی اور دھماکا ہوجائے گا۔ اگر میرے والدین فریب اور دھوکے میں آگئے کہ انھوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے تو آخرت میں اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ اگر ہم کوئی مانگ نہیں کرتے ہیں اور صرف صبر کرلیتے ہیں اس کے رد عمل کے خوف سے تو کیا یہ ہماری طرف سے معاف کردینا تصور کیا جائے گا؟

    جواب نمبر: 12614

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1170=912/ھ

     

    بہتر تو یہی تھا کہ مساوات وبرابری رکھی جاتی، مگر ترکہ جیسا معاملہ کرتے ہوئے تقسیم کردینا بھی درست ہے، یہ کچھ ظلم نہیں، مطابق ایک قول کے یہ تقسیم بھی صحیح ہے، والدین بھائی بہنوں کا آپ اور باقی بہنیں شکریہ ادا کرتی رہیں، اور ان کے ساتھ مناسب صلہٴ رحمی کا معاملہ وابستہ رکھیں، تو ان شاء اللہ اس کے ثمرات وبرکات آپ خود مشاہدہ کریں گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند