• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 607471

    عنوان:

    قادیانیوں میں دعوت وتبلیغ اور ختم نبوت کی محنت کے لیے داڑھی نہ رکھنا

    سوال:

    میرا تعلق پاکستان کے شہر فیصل آباد سے ہے اور چونکہ قادیانیوں کا گڑھ چناب نگر جو کہ سابقہ ربوہ ہمارے گھر سے ایک گھنٹہ کی دوری پر ہے ۔میں وہاں پر قادیانیوں کے گھروں میں دین اسلام کی تبلیغ اور ختم نبوت جیسے عظیم کام کے لیے جاتا ہوں اور قادیانیوں سے ان کے گھر میں بیٹھ کر مناظرہ کرتا ہوں لیکن قادیانی کسی بھی داڑھی والے شخص سے ملاقات نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک ہر داڑھی والا شخص مولوی ہے اور قادیانی مولویوں سے ویسے ہی گھبراتے ہیں لہٰذا اسی مجبوری کی وجہ سے میں نے داڑھی بھی نہیں رکھی ہوئی۔اب میراسوال یہ ہے کہ کیا اس وجہ سے میرا داڑھی نہ رکھنا درست ہے یا نہیں؟ کیونکہ اگر میں نے داڑھی رکھ لی تو کوئی بھی قادیانی مجھ سے ملاقات نہیں کرے گا اور ممکن ہے کہ میرا یہ تبلیغ کا کام بھی رک جائے لہٰذا اس کے متعلق رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ۔

    جواب نمبر: 607471

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:112-18T/H-Mulhaqa=4/1443

     جو لوگ دین اسلام کی تبلیغ واشاعت اور دفاع کے مکلف ہیں، وہ شریعت کی حدود اور دائرہ میں رہ کر ہی مکلف ہیں، اُن کے لیے بھی دین اسلام کی تبلیغ واشاعت اور دفاع کے نام پر شریعت کی حدود پھلانگنا اور اُن سے تجاوز کرنا جائز نہیں(مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ، ۸: ۴۲۹- ۴۳۱، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)؛ لہٰذا قادیانیوں میں دین اسلام کی تبلیغ اور ختم نبوت جیسے عظیم کام کے نام پر داڑھی نہ رکھنا جائز نہ ہوگا، آپ داڑھی لازمی طور پر رکھیں، پھر اگر داڑھی کے ساتھ اُن کے درمیان دین کا کام کرنا ممکن ہو تو آپ ضرور کام کریں، اوراگر داڑھی کے ساتھ ممکن نہ ہو تو آپ شرعاً معذور ہوں گے، اس صورت میں آپ کی اُن کے درمیان کام نہ کرنے پر آخرت میں إن شاء اللّٰہ تعالٰی گرفت نہ ہوگی۔

    قولہ: ”وإعفاء اللحیة“: إرسالھا وتوفیرھا، ……واللحیة اسم لما نبت علی الخدین والذقن، وجمعھا لحی بکسر اللام وضمھا کسدرة وسدر وحلیة وحلی، والذقن مجمتمع لحییہ، وقد ورد في إعفاء اللحیة أحادیث کثیرة، منھا ما رواہ البخاري في صحیحہ بسندہ عن ابن عمر عن النبي صلی اللّٰہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم قال: ”خالفوا المشرکین، وفِّرُوا اللحی وأحفوا الشارب“، ومنھا ما رواہ أیضاً عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم: ”أنھکوا الشوارب وأعفوا اللحی“، وقد أخرج ھذا الحدیث أیضاً الأئمة الستة، ومنھا……………… إلی غیر ذلک من الأحادیث الصحیحة الصریحة التي یطول ذکرھا في الأمر بإعفاء اللحیة، وأصل الأمر للوجوب ولا یصرف عنہ إلا بدلیل کما ھو مقرر في علم الأصول، فلذلک (- فلأجل أن الأمر للوجوب -) کان حلق اللحیة مُحرَّما عند أئمة المسلمین المجتھدین: أبي حنیفة ومالک والشافعي وأحمد وغیرھم، وھاک بعض نصوص المذاھب فیھا؛ قال في کتاب الصوم من الدر المختار للحنفیة:……وأما الأخذ منھا وھي دون ذلک- أي:دون القبضة - کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الأعاجم اھ، وقال فی البحر الرائق:……وأما الأخذ منھا وھي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة والمخنثة من الرجال فلم یبحہ أحد کذا في فتح القدیر اھ، ونحوہ في شرح الزیلعي علی الکنز وحاشیة الشرنبلالي علی الدرروغیرھما من کتب السادة الحنفیة إلخ (المنھل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود، کتاب الطھارة، حکم اللحیة، ۱:۱۸۵، ۱۸۶،ط: موٴسسة التاریخ العربي بیروت)۔

    کل أمر بمعروف یتضمن منکراً یسقط وجوبہ کذا في الوجیز للکردري (الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الرابع في الصلاة والتسبیح إلخ، ۵: ۳۱۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند