• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 58438

    عنوان: دعوت و تبلیغ

    سوال: کسی د رجے میں دعوت و تبلیغ کے کام کے ساتھ منسلک ہوں۔یہاں تبلیغی بیانات میں، تبلیغ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اسلاف کی کتابوں میں موجود علم سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتیں ، اس لئے اُن کا صحیح یا غلط ہونا معلوم کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں بذریعہ ای۔میل رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ بعض دوسرے لوگ بھی مسائل پوچھنے کے لئے مجھے ای۔میل کرنے کو کہہ دیتے ہیں، اس لئے صحیح رہنمائی کے لئے میری طرف سے بہت سی باتیں اور مسائل بار بار پوچھے جائیں گے آپ برائے مہربانی اس کو محسوس نہ فرمائیں اور رہنمائی فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں آمین۔ مزید گزارش ہے کہ یہ بیان کرنے والے حضرات اکثر دوسرے شہروں سے ہوتے ہیں اور بیان کرنے کے بعد چلے جاتے ہیں۔ اُن سے لکھوانا ممکن نہیں ہے اور شاید ہمارے لئے مناسب نہیں۔ (اس تمہید کو برائے مہربانی فتاویٰ میں شامل نہ کیا جائے ۔) گزارش ہے کہ مقامی مرکز میں بیان کرتے ہوئے بیان کرنے والے بزرگ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمت کے غم کے متعلق ایک حدیث بیان کی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک سے ہنڈیاں کے اُبلنے کی طرح آواز آتی تھی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا یا کسی اور صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ یہ سینے میں اُمت کا غم ہے جس کی وجہ سے یہ آواز آتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسی حدیث موجود ہے ،جس میں سینے کی آواز کی وجہ کو اُمت کا غم قرار دیا گیا ہو۔ اگر موجود ہے تو برائے مہربانی حوالہ لکھ دیں، اگر نہیں ہے تو کیا لوگوں کی ترغیب کے لئے کوئی بات جس کی کتابوں میں سندموجود نہ ہو کرنا جائز ہے یا نہیں۔ جواب کا انتظار رہے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں آمین۔

    جواب نمبر: 58438

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 536-105/D=6/1436-U عن مطرف عن أبیہ قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّي وَفِي صَدْرِہِ أَزِیزٌ کَأَزِیزِ الرَّحَی مِنَ الْبُکَاءِ․ (ابوداود ص۱۳۰، کتاب الصلاة) بعض روایتوں میں قدر دیگچی کے الفاظ بھی آئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رونا خوف وخشیت الہٰی، فکر آخرت، اور فکر امت سب کی وجہ سے تھا جیسا کہ ایک روایت میں ہے شیبتني سورة ہود اور ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت ”کان دائم الحزن“ ذکر کی گئی ہے، یہ کیفیات ان مجموعہ امور کی یہاں بھی ہوتی تھیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا، امت کا غم بھی اس کا ایک جز ہے لیکن ان کیفیات کا انحصار صرف اسی میں نہیں ہے۔ رہا بیان کرنے والے نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا کسی صحابی کے واسطہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف جو نسبت ”امت کا غم“ کے تشریح کی کیا ہے یہ روایت ہماری نظر سے نہیں گذری، بے سند یا جھوٹا انتساب کرکے کوئی بات ترغیب وترغیب کے لیے کہنا بھی جائز نہیں، وعظ وتذکیر کے لیے بے سند یا گھڑکر باتیں کہنا بھی غلط ہے۔ اسی لیے موضوع روایت کا بیان کرنا جائز نہیں ہاں ضعیف روایات ترغیب وترہیب کے لیے بیان کی جاسکتی ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند