• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 23991

    عنوان: میں ایک حافظ قرآن ہوں۔ اور میں بعد نماز ظہر اور بعد نماز عصر تلاوت کرتا ہوں۔ جب میں تلاوت میں مشغول ہو جاتا ہوں تو بعض تبلیغی حاضرات مجھے کہتے ہیں کہ یہ انفرادی عمل ہے اور وہاں پر ہمارا اجتماعی عمل ہے۔ لہذا اس کا یعنی قرآن کریم کا ثواب کم ہے اور وہ اجتماعی عمل کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت قطرہ ہے اور تبلیغی عمل کی ثواب مثل دریا ہے۔ اور بعض تو اس حد تک کہتے ہیں کہ جب اجتماعی عمل شروع ہوں تو قرآن کی تلاوت کا کوئ فائدہ نہیں ہے۔ برائے مہربانی مجھے قرآن اور حدیث کی روشنی میں رہنمائ کریں کہ کونسا عمل ٹھیک اور کونسا بڑا ہے اور کیا ہم بالکل تلاوت نہیں کریں گے۔

    سوال: میں ایک حافظ قرآن ہوں۔ اور میں بعد نماز ظہر اور بعد نماز عصر تلاوت کرتا ہوں۔ جب میں تلاوت میں مشغول ہو جاتا ہوں تو بعض تبلیغی حاضرات مجھے کہتے ہیں کہ یہ انفرادی عمل ہے اور وہاں پر ہمارا اجتماعی عمل ہے۔ لہذا اس کا یعنی قرآن کریم کا ثواب کم ہے اور وہ اجتماعی عمل کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت قطرہ ہے اور تبلیغی عمل کی ثواب مثل دریا ہے۔ اور بعض تو اس حد تک کہتے ہیں کہ جب اجتماعی عمل شروع ہوں تو قرآن کی تلاوت کا کوئ فائدہ نہیں ہے۔ برائے مہربانی مجھے قرآن اور حدیث کی روشنی میں رہنمائ کریں کہ کونسا عمل ٹھیک اور کونسا بڑا ہے اور کیا ہم بالکل تلاوت نہیں کریں گے۔

    جواب نمبر: 23991

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ): 1528=1135-8/1431

    اگر کسی اجتماعی عمل کو مشورہ سے انجام دیا جارہا ہے یعنی وعظ بیان، یا تعلیم کتاب ہورہی ہے اور کوئی شخص قریب میں بیٹھ کر جہراً یا سراً تلاوت کرے گا تو ظاہر ہیکہ سب کے حق میں خلل کا موجب ہے۔ اگر آپ اجتماعی عمل میں شریک ہوجائیں اور بعد فراغ تلاوت کرلیا کریں تو یہ صورت بالاتفاق درست ہے،اگر اتنی دور بیٹھ جائیں یا گھر جاکر تلاوت کرلیا کریں کہ آپ کے کانوں میں بیان اور تعلیم کی آواز نہ آئے اور تلاوت کی آواز مجلس والوں تک نہ پہنچے تب بھی خلل وتشویش نہ ہوگا۔ الغرض حسن انداز سے اجتماعی وانفرادی اعمال انجام دیتے رہیں اور ان کو انجام دیئے جانے کے لیے ایک دوسرے کو حکمت سے آمادہ کرتے رہیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں البتہ علی الاطلاق تلاوت وغیرہ کو بے فائدہ بتانا یا اسی طرح اجتماعی عمل کو غلط قرار دینا درست نہیں، ہاں اگر یہ کہا جائے کہ اجتماعی عمل ہوتے ہوئے تلاوت میں خلل ہوگا یا تلاوت کی آواز سے مجلس میں شریک بیان کرنے والوں اور سننے والوں کو تشویش ہوگی، پس ایسی صورت میں دونوں کے جو فوائد ہیں وہ پورے حاصل نہ ہوں گے تو یہ بات صحیح ہے بلکہ بعض مرتبہ خلل وتشویش بڑھ جائے تو بالکلیہ فائدہ مفقود ہوجانے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے، کون سا عمل ٹھیک اور کون سا بڑا وغیرہ جیسی بحث فضول ہے، تلاوت فی نفسہ اعظم اعمال میں سے ہے، مگر بعض مرتبہ عوارض خارجیہ کی وجہ سے وعظ و بیان کا مرتبہ بڑھ جاتا ہے، بعض دفعہ اس کا عکس ہوتا ہے، بالکل تلاوت نہ کرنے کو آپ سے کون کہتا ہے؟ مذکورہ بالا تفصیل کے پیش نظر اب ان شاء اللہ کچھ خلجان یا اشکال نہ رہے گا۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند