• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 23600

    عنوان: حدیث صحیح یاد نھیں، لیکن مفھوم اس طرح یاد ھے کہ اگر کوئی برائی ھوتا ھوا دیکھے تو پھلے ھاتھ سے روکھنا چاھئیے پھر اگر اس کی طاقت نہ ھو تو زبان سے روکھے، اگر اس کی طاقت نہ ھو تو دیل میں برا کھے سوالات یہ ھیں(1)دل میں برا برا کھنے کا کیا مظلب ھے، کیا اس کا مطلب یہ ھے کہ عقیدتہً برا سمجھے،اتنا کافی ھے ?(2)زبان سے روکھنے کا کیا مطلب ھے، یعنی صرف یہ کھے کہ بھائی یہ کام نہ کر، بس اس کا کام پورا ھگیا،اکثر جھگڑے کا خطرھ ھوتا ھے یا تو تو میں میں کا،یا شرارت کا (3)ھاتھ سے روکھنے کا کیا مطلب ھے? کیا اس کا مطلب ھے کہ آدمی سے جھگڑا کرے، یا زبردستری کرے، یا اس کو مارے، چیزیں تھوڑ دالے? اس ھاتھ کے استعمال کی کیا حد ھے?بچون کو مارنے، یا بیوی کو مارنے کی جو اجازت ھے اس کی حد کیا ھے? نیز اگر مارنے کے بعد بھی وہ برا کام کرتے رھیں تو ھمیں کب تک مارنا چاھئیے اور کتنی مرطبہ۔ کیا ھاتھ کے استعمال یا مارنے کے استعمال کے طریقے پر جب امر بل المعروف و نھی عن المنکر کیا جائے اس میں یہ ضروری ھے کے مار کھانے والا جب تک برا عمل نہ چھوڑے اس وقت تک مارنا چھاھئیے?? کیا نہ مارنا گناہ ھے?(4) آج کل گناھوں کا ھجوم ھے ، ذرا گھر سے نکلیں تو لوگ گناھوں میں مبتلا نظر آتے ھیں? کوئی گانا سن رھا ھے، کوئی لڑکیاں دیکھ رھا ھے، کوئی معملا ت میں غلطی کر رھا ھے، کوئی سود والے بینک میں کام کر رھا ھے، کتنوں کی دھاڑی نھیں ھے،کوئی گالی دے رھا ھے، کیا اس حدیث کا مطلب یہ ھے کہ ھر کسی کو منع کرو،اب ھر کسی کو منع کرنا تو بھت مشکل ھے،عملاً مں نے کسی عالم کو اس طرح کرتے نھیں دیکھا، اس طر ح توگھر سے باھر نکل نھیں سکتے۔ مجھے لگتا ھے کہ میں نے اس حدیث کو صحیح طور پر نھیں سمجھا۔(5)گھر میں میں اپنے سے چھوٹوں کو برائی سے منع کرتا ھوں، پھر بھی نھیں مانتے، کیا میرا کام صرف کھنے سے ختم ھوجایئےگا یا ماروں اور کتنی دفع اور کب تک اور کیسے? 

    سوال: حدیث صحیح یاد نھیں، لیکن مفھوم اس طرح یاد ھے کہ اگر کوئی برائی ھوتا ھوا دیکھے تو پھلے ھاتھ سے روکھنا چاھئیے پھر اگر اس کی طاقت نہ ھو تو زبان سے روکھے، اگر اس کی طاقت نہ ھو تو دیل میں برا کھے سوالات یہ ھیں(1)دل میں برا برا کھنے کا کیا مظلب ھے، کیا اس کا مطلب یہ ھے کہ عقیدتہً برا سمجھے،اتنا کافی ھے ?(2)زبان سے روکھنے کا کیا مطلب ھے، یعنی صرف یہ کھے کہ بھائی یہ کام نہ کر، بس اس کا کام پورا ھگیا،اکثر جھگڑے کا خطرھ ھوتا ھے یا تو تو میں میں کا،یا شرارت کا (3)ھاتھ سے روکھنے کا کیا مطلب ھے? کیا اس کا مطلب ھے کہ آدمی سے جھگڑا کرے، یا زبردستری کرے، یا اس کو مارے، چیزیں تھوڑ دالے? اس ھاتھ کے استعمال کی کیا حد ھے?بچون کو مارنے، یا بیوی کو مارنے کی جو اجازت ھے اس کی حد کیا ھے? نیز اگر مارنے کے بعد بھی وہ برا کام کرتے رھیں تو ھمیں کب تک مارنا چاھئیے اور کتنی مرطبہ۔ کیا ھاتھ کے استعمال یا مارنے کے استعمال کے طریقے پر جب امر بل المعروف و نھی عن المنکر کیا جائے اس میں یہ ضروری ھے کے مار کھانے والا جب تک برا عمل نہ چھوڑے اس وقت تک مارنا چھاھئیے?? کیا نہ مارنا گناہ ھے?(4) آج کل گناھوں کا ھجوم ھے ، ذرا گھر سے نکلیں تو لوگ گناھوں میں مبتلا نظر آتے ھیں? کوئی گانا سن رھا ھے، کوئی لڑکیاں دیکھ رھا ھے، کوئی معملا ت میں غلطی کر رھا ھے، کوئی سود والے بینک میں کام کر رھا ھے، کتنوں کی دھاڑی نھیں ھے،کوئی گالی دے رھا ھے، کیا اس حدیث کا مطلب یہ ھے کہ ھر کسی کو منع کرو،اب ھر کسی کو منع کرنا تو بھت مشکل ھے،عملاً مں نے کسی عالم کو اس طرح کرتے نھیں دیکھا، اس طر ح توگھر سے باھر نکل نھیں سکتے۔ مجھے لگتا ھے کہ میں نے اس حدیث کو صحیح طور پر نھیں سمجھا۔(5)گھر میں میں اپنے سے چھوٹوں کو برائی سے منع کرتا ھوں، پھر بھی نھیں مانتے، کیا میرا کام صرف کھنے سے ختم ھوجایئےگا یا ماروں اور کتنی دفع اور کب تک اور کیسے?

    جواب نمبر: 23600

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 1301=1046-7/1431

    (۱) دل سے برا سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی کو برائی کرتا ہوا دیکھے تو اس کے اس برائی کرنے سے دل سے ناگوار اور برا سمجھے اس پر راضی وخوش نہ ہو کما في المرقاة فإن لم یستطع فبقلبہ بأن لا یرضی بہ وینکر في باطنہ علی متعاطیہ․
    (۲) زبان سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ اس منکر اور برائی پر قرآن وحدیث میں وعید اور احکامات وارد ہیں اس کو نرمی اور شفقت نیز پوری ہمدردی کے ساتھ اس طرح سمجھائے کہ اس منکر کی برائی سامنے والے کے دل میں اتر جائے اور وہ اس برائی سے رک جائے کما في المرقاة فبلسانہ أي فلیغیرہ بالقول وتلاوة ماأنزل اللہ من الوعید علیہ وذکر الوعظ والتخویف والنصیحة․
    (۳) ہاتھ سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ برائی میں مبتلا شخص کو ہاتھ کے ذریعہ سے اس معصیت اور برائی سے روکے لیکن زبان وہاتھ سے روکنے کے وقت اس بات کا خیال رکھے کہ اس کے اس عمل سے لڑائی جھگڑا اور فتنہ فساد کی نوبت تو نہیں آئے گی ورنہ زبان وہاتھ سے روکنے کی اجازت نہ ہوگی، صرف دل ہی سے اس کو برا جانے۔ نیز بچوں کو مارنے کی حد یہ ہے کہ دو تین چپت لگادے، لکڑی وغیرہ سے مارنے کی اجازت نہیں: کما في الشامي والمراد ضربہ بید لا بخشبة اور بیوی کو مارنے کی حد یہ ہے کہ اس طرح نہ مارے کہ بدن پر اس مار کا اثر وزخم ہو یعنی معمولی مار مارے کما في الشامي لیس لہ أن یضربہا في التأدیب ضربًا فاحشًا وہو الذي یکسر العظم أو یخرق الجلد أو یسودہ کما في التاتار خانیہ (شامي کتاب الحدود باب التعزیر: ۶/۱۳۱، زکریا) نیز بیوی بچے اگر مارنے سے بھی باز نہ آئیں تو خود بھی ان کی اصلاح کے لیے دعا کریں اور اہل اللہ وبزرگوں سے بھی ان کی اصلاح کے لیے دعاء کرائیں اوران کی کتابوں کا پڑھنے کا گھر میں اہتمام کریں۔
    (۴) آج چونکہ گناہوں کا ہجوم اور کثرت ہے، ہرطرف لوگ معاصی میں مبتلا نظر آتے ہیں لہٰذا قدم قدم پر ان کو نکیر کرنے میں کافی حرج اور دقت ہے اس لیے جس شخص سے آپ کا تعلق ہو یا تعلق نہ بھی ہو لیکن آپ کے کہنے سے وہ اپنے غلط کام سے باز آجائے گا نیز کوئی فتنہ فساد نہ ہوگا تو ایسے شخص کو آپ نکیر کرسکتے ہیں ورنہ صرف دل ہی سے برا جانیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاکر مسلمانوں کی اصلاح کے لیے دعا کریں۔
    (۵) آپ اپنے چھوٹوں کو پیار ومحبت اور شفقت سے منع کرتے رہیں جہاں تھوڑی بہت مار کی ضرورت ہو تو اوپر مذکورہ حدود کے تحت مار بھی سکتے ہیں لیکن اگر لڑائی یا فتنہ کی نوبت آجانے کا اندیشہ ہو تو صرف زبان سے ان کو سمجھاتے رہیں خود بھی اس کی اصلاح کے لیے دعاء کریں، اور بزرگان دین و نیک علماء سے ان کے لیے دعاء کرائیں، اتنا کرنے سے آپ ان شاء اللہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند