• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 20562

    عنوان:

    کیا باطل فرقوں (بریلوی، اہل حدیث وغیرہ) کے ساتھ علماء کا مناظرہ کرنا صحیح ہے یا نہیں؟اور اس کا شرعاً کوئی ثبوت ہے یا نہیں؟ سنا کہ حضرت مولانا اسعد مدنی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ مناظرہ میں خیر نہیں، کیا یہ صحیح ہے؟

    سوال:

    کیا باطل فرقوں (بریلوی، اہل حدیث وغیرہ) کے ساتھ علماء کا مناظرہ کرنا صحیح ہے یا نہیں؟اور اس کا شرعاً کوئی ثبوت ہے یا نہیں؟ سنا کہ حضرت مولانا اسعد مدنی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ مناظرہ میں خیر نہیں، کیا یہ صحیح ہے؟

    جواب نمبر: 20562

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 518=165tl-4/1431

     

    قرآن شریف میں اہل باطل کے ساتھ مناظرہ اور ان کے دلائل کی تردید کا طریقہ مذکور ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ?الفوز الکبیر? میں قرآن شریف میں موجود علوم کا ذکر کرتے ہوے ?علم جدال? (چار گمراہ فرقوں کے ساتھ مباحثہ) کو بھی شامل کیا ہے۔ ۲- علم الجدل وہو المحاجة مع الفرق الأربع الضالة من الیہود والنصاری والمشرکین والمنافقین وتبیان ہذا العلم منوط بذمة المتکلم (الفوز الکبیر: ۱۷۰) حضرت شاہ صاحب دوسری جگہ اس کی تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قد وقعت المخاصمة في القرآن العظیم مع الفِرق الأربع الضالة المشرکین والیہود، والنصاریٰ والمنافقین، وہذہ المخاصمة علی طریقین الأول أن یذکر سبحانہ وتعالی العقیدة الباطلة مع التنصیص علی شناعتہا ویذکر استنکارہا فحسب، والثاني أن یبین شبہاتہم الواہیة ویذکر حلہا بالأدلة البرہانیة أو الخطابیة (الفوز الکبیر: ۱۹) احادیث میں باطل فرقوں کی تردید مذکور ہے، صحابہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا خوارج کے ساتھ مباحثہ مصرّح ہے، شرح فقہ اکبر میں حضرت امام اعظم رحمہ اللہ کا علاحدہ سے مناظرہ کا ذکر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت مناظرہ کرنا چاہیے، ہمارے اکابر نے باطل فرقوں سے مناظرے کیے ہیں۔ البتہ صحیح بات سمجھانے کے لیے آپسی افہام وتفہیم کا طریقہ زیادہ موٴثر ہے، اکثر وبیشتر مناظرہ سے مزید تعصب پیدا ہوجاتا ہے۔ غالباً اسی بنا پر حضرت مولانا اسعد مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہوں کہ مناظرہ میں خیر نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند