عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ
سوال نمبر: 175246
جواب نمبر: 175246
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 323-260/D=04/1441
دعوت کے لفظی معنی بلانے کے ہیں، انبیاء علیہم السلام کا پہلا فرض منصبی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے، پھر تمام تعلیماتِ نبوت و رسالت اسی دعوت کی تشریحات ہیں، قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص صفت داعی الی اللہ ہونا ہے، وداعیاً إلی اللہ بإذنہوسراجاً منیراً ، تزکیے کے معنی ظاہری و باطنی نجاسات سے پاک کرنا، ظاہری نجاسات سے تو عام مسلمان واقف ہیں، باطنی نجاسات: کفر و شرک ، غیر اللہ پر اعتماد کلی، اور اعتقاد فاسد، نیز تکبر، حسد، بغض ، حب دنیا وغیرہ، اخلاق رذیلہ سے پاک کرکے، اخلاق فاضلہ پیدا کرنے کے لئے جو جدوجہد کی جاتی ہے اس کا نام تزکیہ ہے۔
بے عمل لوگوں کو دین پر عمل پیرا بنانے کے لئے، ترغیب و ترہیب کے ذریعے جو وعظ و نصیحت کی جاتی ہے، وہ تذکیر کہلاتی ہے۔
عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق سے متعلق احکام و فضائل کی باتیں لوگوں کو بتلانے اور سکھلانے کانام تعلیم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہٴ دعوت میں یہ سب باتیں شامل تھیں۔ تعلیم تذکیر تزکیہ سبھی چیزیں پائی جاتی تھیں۔ مفتی محمد شفیع رحمة اللہ علیہ، داعیاً إلی اللہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں: داعیاً إلی اللہ سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو اللہ تعالی کے وجود اور توحید و اطاعت کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔ (معارف القرآن، جلد: ۷/۱۷۰)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند