• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 159241

    عنوان: دعوت وتبلیغ کا کام فرض کفایہ کیوں ہے؟

    سوال: تبلیغی جماعت کے کام کے بارے میں کا کہنا ہے کہ یہ کام فرض کفایہ ہے یعنی کرو گے تو اجر ملے گا اور نہیں کرو گے تو کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں قیامت کے دن کوئی پوچھ ہوگی جبکہ نبوت کا مقصد اصلی یہی دعوت کا کام تھا اور ختم نبوت کے طفیل یہ دعوت والی مبارک محنت امت کی طرف منتقل ہوئی ہے اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کے اندر ارشاد بھی فرمایا ہے جس کا مفہوم ہے کہ حاضرین غائبین تک میرے پیغام کو پہچا دیں تو کیا وجہ ہے جو نے اس کو فرض کفایہ کہا ہے حضرت یہ بات بھی آپ یاد رکھیں کہ میں کا مخالف نہیں بلکہ موافق ہوں ۔میں نے یہ سوال صرف اپنی رہنمائی کے لیے پوچھا ہے ، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 159241

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:656-657/B=8/1439

    جی ہاں! فی نفسہ دعوت وتبلیغ کا کام فرض کفایہ ہے اور جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں تبلیغ سے پورے دین کی تبلیغ مراد ہے نہ کہ صرف یہی مروجہ دعوت وتبلیغ کا کام، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ․ ترجمہ: اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ (اور لوگوں کو بھی) خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں) یہ الگ بات ہے کہ تبلیغ دین کے مختلف اہم شعبوں میں مثلاً تعلیم وتدریس، تزکیہ نفوس، وعظ وتقریر کی طرح دعوت وتبلیغ بھی ایک شعبہ ہے، نیز اگر تمام لوگ دعوت وتبلیغ سے جڑجائیں تو دین کے دیگر شعبوں اور دنیوی ضروری امور مثلاً تجارت، کھیتی باڑی، ملازمت، علاج ومعالجہ وغیرہ کیسے انجام پائیں گے، اس لیے جس طرح دیگر شعبوں سے جڑنا فرضِ عین نہیں اسی طرح دعوت وتبلیغ سے جڑنا بھی فرض عین نہیں ہے۔

    وفي مرقاة المفاتیح: ”ألا ہل بغلت“ أي أعلمتکم ما أنزل إلیّ من ربّي․ فلیبلغ أي لیخبر الشاہد أي الحاضر الغائب أي حقیقةً أو حکمًا․ (۵/۵۶۴، مکتبہ اشرفیہ دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند