عنوان: امیر کی اطاعت كس حد تك ہونی چاہیے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام کہ ہماری مسجد کے امیر ہیں۔ وہ کسی کی بات نہیں سنتے ، زیادہ اپنی مرضی کراتے ہیں۔ بڑوں کی ترتیب پر کام نہیں کرتے ، کبھی کبھی اپنی سے پڑے عمر کے ساتھیوں کو بھی سنا دیتے ہیں۔ اس ہفتہ تین دن کی جماعت نکلی اور اس میں پرانے ، نیے سب شامل تھے ۔ انھوں نے چائے نہیں بنانے دی اور قہوہ پلاتے رہے ۔ نئے ساتھی واپس ہوئے تو ناراض تھے ۔
ب) اکثر کہتے ہیں کہ عمررضی اللہ کا قول ہے کہ جو تبلیغ کا کام نہیں کرے گا اس کا شمار امت محمدیہصلی اللہ علیہ وسلم میں نہ ہوگا۔
پ) ہر نماز کے بعد ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کو بلا کر حلقہ لگاتے ہیں۔ اور ان کو دعوت دیتے ہیں۔ اس پر بھی لوگوں کو اعتراض ہے ۔ اگر کوئی روکے تو اتنا لمبا لیکچر دیتے ہیں ۔ ایک بات ہے امیر کی اطاعت ، شریعت میں امیرِ تبلیغ کی کیا حیثیت ہے ۔ اور کتنی اس کی اطاعت ہے ۔ میں تو سمجھتا ہوں ہر وہ شخص جو احکامِ خداوندی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی کوشش کر رہاہے اور دوسروں کو پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ تبلیغ کر رہاہے ۔ اب مدارس والے علمائے کرام اور طلباء ان کے پاس اتنا وقت کہاں ہوتا ہے کہ وہ منگل مشورہ ، عصر سے عشاء مسجد، شبِ اتوار اور دوسرے تبلیغی کاموں میں وقت دیں۔ وہ جب نہیں آپاتے تو امیر ناراض ہوتے ہیں۔ مفتی صاحب بھی نہیں بولتے ۔ بہت دکھ ہوتاہے ۔ مذکورہ بالا سوالات کے جوابات چاہئے ۔
جواب نمبر: 15504301-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:21-18/M=2/1439
ناجائز اور خلاف شرع امور میں امیر کی اطاعت جائز نہیں، لیکن جائز اور مباح چیزوں میں امیر کی اطاعت ہونی چاہیے امیر کو بھی اپنے مامورین کا خیال رکھنا چاہیے؛ حکمت، موعظت، حسن تدبیر تحمل اور نرمی سے کام لینا چاہیے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جو قول نقل کیا ہے وہ ہماری نظر سے کہیں نہیں گذرا، جو حضرات مدارس میں دینی علوم پڑھنے پڑھانے میں لگے ہوئے ہیں وہ بھی دین کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں اس لیے اگر وہ تعلیمی مصروفیات کی بنا پر عوام کی ترتیب کے مطابق جماعت کے کاموں میں نہیں لگ پاتے تو ناراض ہونے کی بات نہیں، وہ اپنی تعلیم کی رعایت کے ساتھ جس قدر وقت تبلیغ کے لیے نکال سکیں اسے قبول کرنا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند