• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 606843

    عنوان:

    گھڑی کس ہاتھ میں باندھی جائے؟

    سوال:

    سوال نمبر ۱ : کیا مرد سرف بائیں ہاتھ میں گھڑی پہن سکتے ہیں کہ نہیں؟ملائی والی کتیلی چاٹنا واقع کوئی گناہ ہے ؟ وغیرہ ،

    سوال نمبر ۲: شادی میں میری نظر میں کچھ فضول رسمیں کی جاتی ہیں مثال ، تیل،مہندی، دودھ پلائی، انگو ٹھی ، ڈھونڈنا،وغیرہ ان کا اسلام سے کیا تعلق ہے ؟

    جواب نمبر: 606843

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:286-266/L=4/1443

     گھڑی پہننے میں شرعا کوئی تحدید نہیں جس ہاتھ میں سہولت ہو گھڑ ی پہننا جائز ہے ؛ البتہ خیر کے کاموں میں دائیں ہاتھ کو ترجیح دینا بہتر ہوتا ہے اور گھڑی بھی کارِ خیر کا ذریعہ ہے اس سے خیر کے کاموں میں مدد، اوقات کی حفاظت اور نماز کے اوقات وغیرہ کا علم ہوتا ہے ؛ اس لیے دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہوگا۔

    عن عائشة قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحب التیامن، یأخذ بیمینہ، ویعطی بیمینہ، ویحب التیمن فی جمیع أمورہسنن النسائی (8/ 133)عن عائشة قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " یحب التیامن فی طہورہ، ونعلہ، وفی ترجلہ "مسند أحمد (42/ 443 ط الرسالة)وقال الشیخ محیی الدین: ہذہ قاعدة مستمرة فی الشرع، وہی أن ما کان من باب التکریم والتشریف: کلبس الثوب والسراویل والخف ودخول المسجد والسواک والاکتحال وتقلیم الأظافر وقص الشارب وترجیل الشعر ونتف الابط وحلق الراس والسلام من الصلاة وغسل أعضاء الطہارة والخروج إلی الخلاء والأکل والشرب والمصافحة واستلام الحجر الأسود، وغیر ذلک مما ہو فی معناہ، یستحب التیامن فیہ. [عمدة القاری شرح صحیح البخاری 3/ 31)

    جس برتن میں کوئی کھانے پینے کی چیز ہو اس کو چاٹنے میں کوئی حر ج نہیں بلکہ اس کو چاٹ کر صاف کرلینا بہتر ہے ، حدیث شریف میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے کسی پیالہ میں کچھ کھایا پھر اسے چاٹ لیا (اللہ کی نعمت کی قدر دانی کرتے ہوئے اور کھانے کے کسی حصہ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے )تو پیالہ اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتا ہے ۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من أکل فی قصعة ثم لحسہا، استغفرت لہ القصعةسنن الترمذی (3/ 397 ت بشار)

    (3) شادی کو شریعت نے بہت آسان اور نہایت سادہ بنایا ہے اس میں کسی قسم کے رسم ورواج اور فضولیات کا کوئی گزر نہیں وہ تمام چیزیں جو آپ نے سوال میں لکھی ہیں ان کی شرعا کوئی حیثیت نہیں وہ محض رسم ہیں جو قابل ترک ہیں ؛ البتہ اس موقع پر لڑکی کو زینت کے لئے مہندی وغیرہ لگانے کی اجازت ہے ؛ لیکن اس کے لئے باقاعدہ تقریب کا اہتمام ثابت نہیں لہٰذا سادگی کے ساتھ صرف لڑکی کو مہندی وغیرہ لگادی جائے تو اس کی گنجائش ہے ۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ” اصلاح الرسوم“مؤلفہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اور حضرت ہی کے مضامین کا مجموعہ اسلامی شادی کا مطالعہ کریں ان شاء اللہ کافی فائدہ ہوگا۔

    ففی شرعة الإسلام الحناء سنة للنساء، ویکرہ لغیرہن من الرجال إلا أن یکون لعذر لأنہ تشبہ بہن اہمرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح (7/ 2818)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند