• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 601444

    عنوان:

    تشبہ كی اقسام اور ان كا حكم؟

    سوال:

    تشبہ سے کیا مراد ہے؟اس کی کتنی اقسام ہیں اور کونسی صورت جائز اور کونسی ناجائز ہے؟

    جواب نمبر: 601444

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:349-325/L=5/1442

     تشبہ لغت میں کسی جیسا بننے اور اس کی مماثلت اختیار کرنے کو کہتے ہیں ،اصطلاح میں اس کی مختلف تعریفیں کی گء ہیں :

    ۱۔ اپنی حقیقت ،صورت اور وجود کو چھوڑکر دوسری قوم کی حقیقت، صورت اور وجود میں مدغم ہوجانا تشبہ کہلاتا ہے ۔

    ۲۔ اپنی ہستی کو دوسرے کی ہستی میں فنا کرینے کو تشبہ کہا جاتا ہے ۔

    ۳۔ اپنی ہیئت اور وضع کو تبدیل کرکے دوسری قوم کی وضع اختیار کرلینا تشبہ کہلاتا ہے ۔

    ۴۔ اپنی شان امتیازی کو چھوڑ کر دوسری قوم کی شانِ امتیا زی کو اختیار کرلینا تشبہ کہلاتا ہے ۔

    ۵۔ اپنی اور اپنوں کی صورت وسیرت کو چھوڑکر غیروں اور پرایوں کی صورت اور سیرت اپنا لینا تشبہ کہلاتا ہے ۔

    تشبہ بالکفار کی کئی صورتیں ہیں اور صورتوں کے مختلف ہونے سے احکام بھی مختلف ہیں:

    کفر: عقائد وعبادات میں تشبہ اختیار کرنا کفر ہے ۔جیسے :کافرانہ عقائد ونظریات اختیار کرلیے جائیں یا ان جیسی عبادت مثلا بتوں کو سجدہ وغیرہ کیا جائے ،اس سے انسان بلا شبہ کافر ہوجاتا ہے ۔

    حرام :مذہبی رسومات میں تشبہ اختیار کرنا حرام ہے جیسے نصاری کی طرح صلیب لٹکانا ،ہندؤوں کی طرح زنار باندھنا ،وغیرہ یہ سب حرام ہیں اور ان کے مرتکب پرکفر کا قوی اندیشہ ہے ؛کیونکہ علی الاعلان شعار کا اختیار کرنا کفر پر راضی ہونے کی دلیل ہے ۔

    مکروہ :عادت ومعاشرت اور قومی شعار میں تشبہ اختیار کرنا مکروہ تحریمی ہے ؛البتہ اگر یہ شعار اس قدر عام ہوجائے کہ اس کا استعمال دوسری اقوام میں بھی عام ہوجائے اور ہر طرح کے لوگ اس کو استعمال کرنے لگیں اور تشبہ باقی نہ رہے تو محض تشبہ کی وجہ سے کراہت کا حکم نہ ہوگا ۔

    مباح :ایجادات انتظامات وغیرہ میں تشبہ اختیار کرنا مباح ہے ۔مستفاد:سیرت مصطفی :۳۹۸/۳۔ ۴۰۰،لباس کے اسلامی آداب :۵۳۔ ۵۴) مزید تفصیل کے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب  کی تصنیف ”التشبہ فی الاسلام“ کا مطالعہ کیا جائے ۔

    التشبہ لغة: مصدر تشبہ، یقال: تشبہ فلان: بفلان إذا تکلف أن یکون مثلہ والمشابہة بین الشیئین: الاشتراک بینہما فی معنی من المعانی، ومنہ: أشبہ الولد أباہ: إذا شارکہ فی صفة من صفاتہ . ولا یخرج استعمال الفقہاء لہذا اللفظ عن المعنی اللغوی․ (الموسوعة الفقہیة الکویتیة 12/ 5)

    ثم اعلم أن مسألة الشعار إنما تجری فیما لم یرد فیہ النہی من صاحب الشرع خاصة، وما ورد فیہ النہی، فإنہ یمنع عنہ مطلقا، سواء کان شعارا لأحد أو لا. أما إذا لم یرد بہ النہی وکان شعارا لقوم ینہی عنہ أیضا، فإن لم یکفوا عنہ حتی حصل فیہ الاشتراک أیضا، واختارہ الصلحاء بکف اللسان عنہ.[فیض الباری شرح صحیح البخاری 2/ 122)

    وجوزہ الشافعی بلا کراہة وہما بہا للتشبہ بأہل الکتاب: أی إن قصدہ؛ فإن التشبہ بہم لا یکرہ فی کل شیء، بل فی المذموم وفیما یقصد بہ التشبہ، کما فی البحر․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ 624)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند