معاشرت >> لباس و وضع قطع
سوال نمبر: 58953
جواب نمبر: 58953
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 692-692/M=7/1436-U جو بال حلقوم یا رُخسار پر ہوتا ہے اس کو کاٹنا درست ہے مگر بہتر نہیں ہے ولا یحلق شعر حلقہ وعن أبي یوسف لا باس بہ․ ط، وفي المضمرات ولا بأس بأخذ الحاجبین وشعر وجہہ ما لم یشبہ المخنث․ (شامي: ۹/۴۹۷ ط: دار الکتاب/دیوبند) اور ظاہر ہے کہ ”لا بأس“ اکثر خلافِ ادب پر بولا جاتا ہے، واللحیة ما علی اللِّحیین وکذلک في الہندیة ”داڑھی“ من ”داڑھ“ لکونہا نابتہ علی الأضراس، أما الأشعار التي علی الخدین فلیست من اللحیة لغة وإن کرہ الفقہاء أخذہا؛ لأنہا إن کان بالحدید فذلک یوجب الخشونة في الخدین، وإن کان بالنتف یضعَّف البصر (فیض الباري: ۶/۱۰۰، کتاب اللباس باب إعقاء اللِّحی، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) داڑھی کی حد ایک مشت ہے ایک مشت سے کم کرنا جائز نہیں ہے؛ لہٰذا زائد بالوں کو کاٹنے کی صورت میں کوشش کی جائے کہ کوئی بھی بال ا یک قبضہ سے کم نہ ہوجائے۔ والسنة فیہا القبضة وہو أن یقبض الرجل لحیتہ فما زاد منہا علی القبضة قطعہ- إلخ (الدر مع الرد ۹/۴۹۸، ط: دار الکتاب دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند