• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 55390

    عنوان: با لوں کے احکام

    سوال: عا م طو ر پر عورت کے سر کے با ل کا ٹنے کی مما نعت بتا ئی جا تی ہے ، ایک ویب سائٹ پر بندہ نے ایک فتو ی اس عنوان سے متعلق پڑھا اس میں درج ہے "عو رت کا اس حد تک با لوں کو کم کرنا کہ مرد وں سے مشا بہت ہو نے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نا جا ئزہے " پو چھنا یہ ہے کہ اگر بال اس مقدار میں نہ کا ٹے جا ئیں کہ مردوں سے مشا بہت ہو نے لگے بلکہ کم کا ٹے تو کیا اسکی گنجا ئش ہے ؟ اگر صرف چند بال لیکر ایک پو رے یا دو پو رے کے بقدر کاٹ لئے جا ئیں ، جیساکہ عام طور پر چہرے پربا ل لٹکا نے "لٹھ لٹکانے " کی غرض سے کیا جا تا ہے ، تو کیا اسکی کچھ گنجا ئش ہے یا نہیں؟جبکہ صر ف شو ہر کی خو شنودی اور طما نیت کی غر ض سے ہو، نیز یہ کہ عمرہ اور حج میں عورت کے لئے قصر کا حکم مو جو د ہے ۔ مزید یہ بھی وضا حت فر ما ئیں حر مت کی علت کیا ہے ؟ آیا تشبہ با لرجال ہے یا اور کچھ؟ فتو ے کا حو الہ نیچے لنک میں مو جو د ہے http://www.jamiabinoria.net/Efatawa/jaiznajaiz/hair.html

    جواب نمبر: 55390

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 000-000/M=2/1436-U اس مسئلہ میں ایک اصولی قاعدہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں کو ایسی وضع قد، بال اور لباس کی ایسی تراش خراش کرنے کی اجازت نہیں جس میں کافروں یا فاسقوں اور بدکاروں کی مشابہت پائی جائے،عورتوں کے لیے بال زینت ہے اور بغیر کسی مجبوری کے ان کو کاٹنا ناجائز ہے اور نیز کٹوانے میں مردوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے، نیز آج کل لڑکیوں میں بال کاٹنے کا فیشن ہے، اس لیے بال کٹوانے میں ایسی بے دین عورتوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند