• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 52436

    عنوان: اگر مجمع صرف عورتوں کا ہو اور مردوں کا آنا سختی سے منع ہو جس کی بنا پر مردوں کا وہاں آنا تقریبا ناممکن ہو تو ایسے مین عورتوں کے لئے اپنی آستینوں کو کہنیوں تک اوپر چڑھانا جائز ہے یا نہیں ۔

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرم اس مئلہ کے بارے میں کہ موجودہ دور میں عورتوں کے لباس میں کن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ،آج کل عورتیں جس طرح کا لباس پہنتی ہیں اس میں فیشن تو ہوتا ہے لیکن ستر پوشی کے اعتبار سے اس میں کوئی خامی بسا اوقات نہیں ہوتی تو کیا عورت کے لباس کے لیے صرف ستر پوشی کا خیال رکھنا ضروری ہے یا فیشن کے مطابق کوئی لباس پہننا بھی ممنوع ہے ،مثال کے طور پر کچھ لباس جو عورتوں میں معروف ہین اور فیشن کے مطابق بھی ہین ان کے بارے میں شرعی حکم بیان فرمادیں گھیر دار لمبا فراک جو خاصا کھلا اور پاوں تک آتا ہے ،چوڑی دار چست پاجامہ جو لمبے فراک مین چھپا ہوتا ہے ،لانگ شرٹ جو فراک سے کچھ کم کھلی ہوتی ہے لیکن اس کی لمبائی عام قمیض سے زیادہ پنڈلیوں تک ہوتی ہے ،کھلے پائنچے والا ٹراوزر اور فلاپی ٹراوٴزر (پرانے وقتوں کا شرارہ )جس میں پائنچہ عام شلوار سے کافی کھلا ہوتا ہے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر مجمع صرف عورتوں کا ہو اور مردوں کا آنا سختی سے منع ہو جس کی بنا پر مردوں کا وہاں آنا تقریبا ناممکن ہو تو ایسے مین عورتوں کے لئے اپنی آستینوں کو کہنیوں تک اوپر چڑھانا جائز ہے یا نہیں ۔

    جواب نمبر: 52436

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 790-253/L=6/1435-U (۱) عورتوں کے لباس کے سلسلے میں شریعت نے کسی خاص لباس کی تعیین نہیں کی ہے؛ البتہ اس کے کچھ حدود وقیود مقرر کہے ہیں جن کی رعایت ضروری ہے، مثلاً: ۱) وہ لباس اتنا چھوٹا، باریک یا چست نہ ہو کہ اس سے واجب الستر اعضاء کی مکمل طور پر سترپوشی نہ ہوسکے۔ ۲) وہ لباس ایسا نہ ہو جس میں کافروں، فاسقوں یا فیشن پرست عورتوں کی نقالی ہو۔ ۳) وہ لباس ایسا نہ ہو جو مردوں کا لباس ہو، یا جس سے مردوں کی مشابہت لازم آتی ہو، چست پاجامہ لانگ شرٹ میرے خیال میں فیشن پرست عورتوں کا لباس ہے؛ اس لیے مسلم عوتوں کوایسا لباس پہننے سے احتراز کرنا چاہیے۔ (۲) اگر تمام مجمع صرف مسلم عورتوں کا ہے تو ایسے میں عورتوں کے لیے اپنی آستینوں کواوپر چڑھالنے کی اجازت ہوگی، اگر مجمع میں کافر عورتیں بھی ہیں تو پھر اوپڑ چڑھانا درست نہیں اسی طرح فاسقہ فاجرہ عورتیں ہوں تو بھی آستینوں کو اوپر چڑھانا مناسب نہیں قال في ”الفقہ الحنفی في ثوبہ الجدید“: وتنظر المرأة المسلمة من المرأة کالرجل من الرجل أي إلی ما بین سرتہا إلی رکبتہا کما مر معنًا في شروط الصلاة وقیل کنظر الرجل إلی محارمہ کما مر معنًا في أول موضوع النظر والمس والأول أصح: والمرأة الذمیة کالرجل الأجنبي في الأصح فلا تنظر إلی بدن المسلمة وقولہ تعالی: ”أو نسائہن“ النور: ۳۱۔ أي الحرائر المسلمان، لأنہ لیس للموٴمنة أن تتجرد بین یدي مشرکة أو کتابیة، نقل ذلک عن ابن عباس فہو تفسیر ماثور فلا یحل للمسلمة أن تنکشف بین یدي یہودیة أو نصرانیة أومشرکة، ولا ینبغي للمرأة الصالحة أن تنظر إلیہا المرأة الفاجرة، لأنہا تصفہا عند الرجال فلا تضع جلبابہا ولا خمارہا․ الخ (الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید، الحظر والإباحة، النظر والمس: ۵/ ۳۸۳، ط دارالإیمان،سہارنفور)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند