معاشرت >> لباس و وضع قطع
سوال نمبر: 52436
جواب نمبر: 52436
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 790-253/L=6/1435-U (۱) عورتوں کے لباس کے سلسلے میں شریعت نے کسی خاص لباس کی تعیین نہیں کی ہے؛ البتہ اس کے کچھ حدود وقیود مقرر کہے ہیں جن کی رعایت ضروری ہے، مثلاً: ۱) وہ لباس اتنا چھوٹا، باریک یا چست نہ ہو کہ اس سے واجب الستر اعضاء کی مکمل طور پر سترپوشی نہ ہوسکے۔ ۲) وہ لباس ایسا نہ ہو جس میں کافروں، فاسقوں یا فیشن پرست عورتوں کی نقالی ہو۔ ۳) وہ لباس ایسا نہ ہو جو مردوں کا لباس ہو، یا جس سے مردوں کی مشابہت لازم آتی ہو، چست پاجامہ لانگ شرٹ میرے خیال میں فیشن پرست عورتوں کا لباس ہے؛ اس لیے مسلم عوتوں کوایسا لباس پہننے سے احتراز کرنا چاہیے۔ (۲) اگر تمام مجمع صرف مسلم عورتوں کا ہے تو ایسے میں عورتوں کے لیے اپنی آستینوں کواوپر چڑھالنے کی اجازت ہوگی، اگر مجمع میں کافر عورتیں بھی ہیں تو پھر اوپڑ چڑھانا درست نہیں اسی طرح فاسقہ فاجرہ عورتیں ہوں تو بھی آستینوں کو اوپر چڑھانا مناسب نہیں قال في ”الفقہ الحنفی في ثوبہ الجدید“: وتنظر المرأة المسلمة من المرأة کالرجل من الرجل أي إلی ما بین سرتہا إلی رکبتہا کما مر معنًا في شروط الصلاة وقیل کنظر الرجل إلی محارمہ کما مر معنًا في أول موضوع النظر والمس والأول أصح: والمرأة الذمیة کالرجل الأجنبي في الأصح فلا تنظر إلی بدن المسلمة وقولہ تعالی: ”أو نسائہن“ النور: ۳۱۔ أي الحرائر المسلمان، لأنہ لیس للموٴمنة أن تتجرد بین یدي مشرکة أو کتابیة، نقل ذلک عن ابن عباس فہو تفسیر ماثور فلا یحل للمسلمة أن تنکشف بین یدي یہودیة أو نصرانیة أومشرکة، ولا ینبغي للمرأة الصالحة أن تنظر إلیہا المرأة الفاجرة، لأنہا تصفہا عند الرجال فلا تضع جلبابہا ولا خمارہا․ الخ (الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید، الحظر والإباحة، النظر والمس: ۵/ ۳۸۳، ط دارالإیمان،سہارنفور)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند