معاشرت >> لباس و وضع قطع
سوال نمبر: 39952
جواب نمبر: 39952
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 776-761/N=9/1433 (۱) تا (۳) داڑھی کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث مروی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جو تفصیلات منقول ہیں، نیز داڑھی بڑھانے اور کاٹنے کے متعلق صحابہٴ کرام کا جو عمل روایات میں آیا ہے، ان سب کی روشنی میں چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) بلکہ پوری امت نے یہ بات متعین کی ہے کہ داڑھی کی شرعی اور وجوبی مقدار ایک مشت ہے، جو داڑھی ایک مشت سے کم کردی جائے وہ ہرگز شرعی داڑھی نہیں ہے۔ اگرچہ وہ دور سے داڑھی نظر آئے۔ (۴) دارھی منڈانے والا اور ایک مشت سے کم پر کتروانے والا دونوں ناجائز وحرام کے مرتکب اور فاسق ہونے میں برابر ہیں، البتہ داڑھی منڈانا اشد ہے ایک مشت سے کم پر کتروانے سے کیونکہ منڈانے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت اور پورے طور پر تغییر لخلق اللہ پائی جاتی ہے۔ (۵) داڑھی منڈانے یا ایک مشت سے کم پر کتروانے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت اور شیطان کی پیروی پائی جاتی ہے، اس لیے قرآن وحدیث میں ان دونوں پر جتنی وعیدیں آئی ہیں وہ سب داڑھی منڈانے اور ایک مشت سے کم پر کتروانے پر منطبق ہوں گی، وعید کی چند آیات ملاحظہ ہوں: ”وَلَآَمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَمَنْ یَتَّخِذِ الشَّیْطَانَ وَلِیًّا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِیْنًا“ (سورہٴ نسا: آیت: ۱۱۹)، ”وَمَنْ یُشَاقِقِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ“ (سورہٴ انفال، آیت: ۱۳) ”فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ“ (سورہٴ نور، آیت: ۶۳)، ”وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا وَاتَّقُوْا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ“ (سورہٴ حشر، آیت: ۷) وغیرہ۔ (۶) ہونٹ کے نیچے بیچ میں جو بال ہوتے ہیں (جنھیں عربی میں عَنْفَقَةٌ اوراردو میں بچہ داڑھی کہتے ہیں) وہ داڑھی ہی کا جزو ہیں، داڑھی کی طرح ان کا مونڈنا یا ایک مشت سے کم پر کتروانا ناجائز وحرام ہے قال في المنہل العذب المورود (۱:۱۸۷): وأما شعر العنفقة فیحرم إزالتہ کحرمة إزالة شعر اللحیة اھ اور بچہ داڑھی کے دائیں بائیں جو بال ہوتے ہیں شامی (۹/۵۸۳) اور احیاء العلوم وغیرہ میں ان کے مونڈنے کو بدعت لکھا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ انھیں مونڈنے کی گنجائش ہے، حضرت تھانوی رحمہ اللہ الطرائف والظرائف میں فرماتے ہیں: گرفتن موئے فنیکین بروزن ملیکین کہ عبارت است از طرفین عنفقہ باک ندارد، محدث دہلوی رحمہ اللہ در شرح صراط مستقیم می آرد: حلق طرفین عنفقہ لا باس بہ است (داڑھی اور انبیاء کی سنتیں: ص۵۵)۔ (۷) ٹھوڑھی کی ہڈی کے بعد سے مونڈ سکتے ہیں کیونکہ ٹھوڑی کی ہڈی کا آخر ہی ڈاڑھی کی حد ہے۔ (۸) جبڑے کی ہڈی پر اگنے والے بال کے علاوہ رخسار پر جتنے بال ہوں وہ سب مونڈسکتے ہیں جائز ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ رخسار کے بال نہ مونڈے جائیں۔ (۹) صرف حنفیہ کے نزدیک نہیں بلکہ چاروں ائمہ کے نزدیک ایک مشت داڑھی واجب ہے اور کسی امام سے اس کے خلاف مروی نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند