• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 1819

    عنوان: اگر کوئی عورت بلاکسی معقول وجہ کے طلاق لے تو کیا بچوں پر اس کا کوئی حق نہیں رہتا؟

    سوال: میری بیوی طلاق لینا چاہتی ہے، اب تک میں اس سے گریز کرتارہا ہوں، لیکن اب وہ اس سلسلے میں کورٹ جارہی ہے ۔ ہمارا ایک سال کا بچہ بھی ہے۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ فقہ حنفی کے مطابق اگر کوئی عورت بلاکسی معقول وجہ کے طلاق لے تو بچوں پر اس کا کوئی حق نہیں رہتا۔ رہ نمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 1819

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى:  538/ن = 527/ن)

     

    لڑکی یا لڑکا، ان کی ماں کو طلاق دیئے جانے کے بعد والد کے ہوتے ہیں اس پر ان کا خرچہ واجب ہے، لیکن ماں کو حقِ پرورش حاصل ہوتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو لڑکے کو سات سال تک پرورش کے لیے اپنے پاس رکھ سکتی ہے، سات سال کے بعد اس کا حقِ پرورش ساقط ہوجاتا ہے اور لڑکی کو بالغہ ہونے تک پرورش کے لیے اپنے پاس رکھ سکتی ہے، بالغہ ہونے کے بعد حقِ پرورش ساقط ہوجاتا ہے، اور یہ ماں کو حقِ پرورش اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ وہ بچوں کے غیرمحرم کے ساتھ نکاح نہ کرے اگر ان کے غیرمحرم سے نکاح کرلے تو مذکورہ مدتوں سے پہلے ہی ماں کا حقِ پرورش ساقط ہوجاتا ہے والحاضنة أمًّا أو غیرھا أحق بہ أي بالغلام حتی یستغني عن النساء وقدّر بسبع وبہ یفتی لأنہ الغالب (در مختار: ج۵ ص267، ط زکریا دیوبند) والأم والجدة لأم أو لأب أحق بھا أي بالصغیرة حتی تحیض أي تبلغ في ظاہر الروایة در مختار: ج۵ ص268، ط زکریا دیوبند) والحاضنة یسقط حقھا بنکاح غیر محرمہ أي الصغیر (در مختار: ج۵ ص266) اگر آپ نے ہمارے لکھے گئے جواب کے خلاف کسی کتاب میں دیکھا ہو تو اس کتاب کا نام مع حوالہٴ صفحہ کے تحریر فرمائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند