معاشرت >> لباس و وضع قطع
سوال نمبر: 176943
جواب نمبر: 176943
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:538-87T/sd=6/1441
مردوں کے لیے ٹخنوں سے اوپر شلوار، لنگی وغیرہ پہننا ضروری ہے ، ٹخنے سے نیچے لٹکانا سخت گناہ ہے اور نصف پنڈلی تک رکھنا مسنون ہے ، حضور ﷺ سے اس کی ترغیب منقول ہے اور آپ خود بھی نصف پنڈلی تک ازار پہنا کرتے تھے۔
عن ابن عمر - رضی اللہ عنہما - قال: مررت برسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - وفی إزاری استرخاء. فقال: " یا عبد اللہ! ارفع إزارک " فرفعتہ، ثم قال: " زد " فزدت. فما زلت أتحراہا بعد. فقال بعض القوم: إلی أین؟ قال: " إلی أنصاف الساقین رواہ مسلم. قال الملا علی القاری: (فزدت) : أی فسکت - صلی اللہ علیہ وسلم - (فما زلت أتحراہا) : أی أتحری الفعلة وہی رفع الإزار شیئا فشیئا. ذکرہ الطیبی. والظاہر أن الضمیر راجع إلی الرفعة الأخیرة، والمعنی دائما أجتہد وأبذل الجہد علی أن یکون رفع إزاری علی وفق تقریرہ - صلی اللہ علیہ وسلم - (بعد) : مبنی علی الضم أی بعد قول النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - ارفع " ثم " زد " (فقال بعض القوم: إلی أین؟) : أی رفعتہ فی المرة الأخیرة (قال: إلی أنصاف الساقین. رواہ مسلم). وفی الشمائل عن عبید بن خالد المحاربی قال: بینما أنا أمشی بالمدینة إذ إنسان خلفی یقول: ارفع إزارک ; فإنہ أتقی. وفی روایة: أنقی بالنون وأبقی بالموحدة، فالتفت، فإذا ہو رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - فقلت: یا رسول اللہ! إنما ہی بردة ملحاء، قال: " أما لک فی أسوة؟ " فنظرت، فإذا إزارہ إلی نصف ساقیہ وعن سلمة بن الأکوع قال: کان عثمان بن عفان یأتزر إلی أنصاف ساقیہ، وقال: ہکذا کانت إزرة صاحبی، یعنی النبی - صلی اللہ علیہ وسلم وعن حذیفة قال: أخذ رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - بعضلة ساقی أو ساقہ فقال: " ہذا موضع الإزار، فإن أبیت فأسفل، فإن أبیت فلا حق للإزار فی الکعبین " ہذا وقد سبق فی الحدیث الصحیح: " ما أسفل من الکعبین من الإزار فی النار) مشکاة المصابیح مع مرقاة المصابیح، رقم: ۴۳۶۸)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند