• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 64748

    عنوان: کرنسی کی ادھار یعنی قسطوں پر خرید وفروخت

    سوال: مولانا صاحب کیا فرماتے ہیں علمائدین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید اوربکر دو کاروباری حضرات ہیں،وہ اپنا کاروبار کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ مثلا" زید کو اپنے کاروبار کی ترقی کے لئے پیسے کی ضرورت ہے وہ بکر سے پیسے کا مطالبہ کرتا ہے بکر مارکیٹ سے دراہم خرید کر زید سے کچھ منافع کے ساتھ فروخت کرتا ہے ،زید کی خواھش کے مطابق وہ ٹوٹل رقم ماہانہ قسطوں کے حساب سے ادا کرے گا کیوں کہ قسط میں ان کو آسانی ہوگی،کیا یہ سودا شریعت میں جائز ہے ؟ مثال کے طور پر بکر ایک لاکھ روپئے پر چار ہزاردراھم خرید کر زید پر ایک لاکھ ستائس ہزار روپے پر فروخت کرتا ہے ، زید نے دراھم قبول کئے اور خوش بھی تھا لیکن اس نے بکر سے مطالبہ کیا کہ میرے لئے قسط مقررکریں۔ میں ماہانہ تین ھزار روپے ادا کروں گا۔اس طرح زید ایک لاکھ ستائس ھزار روپے ماہانہ تین ھزار قسط کے حساب سے ادا کرتا رہتا ہے ۔یہاں تک کہ رقم پوری ہو جائے ۔ کیا یہ سودا جائز ہے ؟ جنس مختلف ہو تو ہم ایک چیز کوقسطوں پر زیادہ قیمت پر فروخت کر سکتے ہیں۔کیا دراھم اور روپئے مختلف جنس نہیں؟ اس میں تفاضل کاکیا حکم ہے ؟اور قسط کا کیا حکم ہے ؟ مندرجہ بالا سودے میں بکر اگر دراھم کے بجائے موٹر کار خریدیں اور پھر زید پر ایک لاکھ ستائس ہزار روپے پر قسطوں کے حساب سے فروخت کر دیں۔تو زید کا اصل مقصد روپیہ ہے جو وہ کاروبار میں لگانا چاہتا ہے موٹر نہیں،لہذا اس صورت میں وہ اگر موٹر کی جگہ دراھم خریدیں تواس صورت میں زید کو کرنسی تبدیل کرنے میں آسانی ہے بجائے کہ وہ موٹر کار خریدے ۔لہذا دراھم کی صورت میں تفاضل اور قسط کا کیا حکم ہے ؟ مسئلے کی تفصیلی وضاحت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 64748

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 560-560/Sd=7/1437 پیسے اور دراہم کی جنسیں الگ الگ ملکوں کی کرنسی ہونے کی وجہ سے مختلف ہیں، اس لیے ان دونوں کرنسیوں کا آپس میں کمی بیشی اور قسطوں پر ادھار کے ساتھ تبادلہ جائز ہے؛ البتہ دو باتوں کا لحاظ ہونا چاہئے: (۱) مجلس عقد میں بدلے میں دی جانے والی کرنسی کی مقدار طے ہوجائے، تاکہ آئندہ نزاع کا اندیشہ نہ رہے۔ (۲) ایک کرنسی پر مجلس عقد میں پوری طرح قبضہ پایا جائے؛ تاکہ اُدھار در اُدھار بیع کی حرمت متحقق نہ ہو، لہذا صورت مسئولہ میں بکر کا دراہم خرید کر نفع کے ساتھ زید کو قسطوں پر ادھار فروخت کرنا شرعا جائز ہے بشرطیکہ مجلس عقد میں زید دراہم پر قبضہ کرلے۔ قسطوں پر خرید فروخت کی صور ت میں نقد کے مقابلے میں قیمت زیادہ مقرر کرنا شرعا جائز ہوتا ہے، یہ سود کے دائرے میں نہیں آتا۔ وإذا عدم الوصفان والمعنی المضموم إلیہ حل التفاضل والنساء لعدم العلة المحرمة۔ (الہدایة / باب الربا ۳/۷۹، الفتاویٰ التاتارخانیة ۸/۳۴۸ زکریا) بیع الفلوس بمثلہا، کالفلس الواحد بالفلس الواحد الآخر، وہٰذا إنما یجوز إذا تحقق القبض في أحد البدلین في المجلس قبل أن یفترق المتبایعان؛ فإن تفرقا ولم یقبض أحد شیئًا فسد العقد؛ لأن الفلوس لا تتعین، فصارت دَینًا علی کل أحد، والافتراق عن دَین بدَین لا یجوز۔ (تکملة فتح الملہم ۱/۵۸۷) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند