• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 6381

    عنوان:

    زید اپنا پلاٹ یا مکان /جائیداد وغیرہ بکر کو فروخت کرتا ہے مشتری یعنی بکر اس پلاٹ کو خریدنے کیلئے بیعانہ میں کچھ رقم دے دیتا ہے اور دونوں باہمی رضامندی سے اقرانامہ /معاہدہ میں یہ بات تحریر کرتے ہیں کہ اگر مشتری نے مقررہ مدت تک بقیہ رقم ادا نہ کی یا معاہدہ سے مکر گیا تو بائع کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اس کا بیعانہ ضبط کرے۔ 1? کیا بیعانہ کی رقم بائع ضبط کر سکتا ہے ؟ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو بعض صور توں میں اس کو مشتری کی طرف سے نقصان پہچتا ہے۔(مثلا مشتری ایک سال کے بعد یہ کہہ دیتا ہے کہ میں یہ مکان وغیرہ نہیں لیتا میرا بیعانہ واپس کرو اب اس صورت میں اگر مشتری کے ساتھ بات کی ہوتی تو ممکن تھا مکان کوئی اور شخص خرید لیتا یا مکان کرایہ پر لگ جاتا اور کرایہ ایک سال تک آتا رہتا وغیرہ)؟ اگر بیعانہ لینا یا ضبط کرنا جائز ہے تو فبہا ، اور اگر نہیں تو کیا کوئی اور ایسی صورت ہے کہ بائع کو اس قسم یا اور کسی نقصان سے بچایا جائے جو مشتری کے بائع کے ساتھ معاہدہ کرنے کی وجہ سے بائع کو ہوتا ہے۔

    سوال:

    زید اپنا پلاٹ یا مکان /جائیداد وغیرہ بکر کو فروخت کرتا ہے مشتری یعنی بکر اس پلاٹ کو خریدنے کیلئے بیعانہ میں کچھ رقم دے دیتا ہے اور دونوں باہمی رضامندی سے اقرانامہ /معاہدہ میں یہ بات تحریر کرتے ہیں کہ اگر مشتری نے مقررہ مدت تک بقیہ رقم ادا نہ کی یا معاہدہ سے مکر گیا تو بائع کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اس کا بیعانہ ضبط کرے۔ 1? کیا بیعانہ کی رقم بائع ضبط کر سکتا ہے ؟ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو بعض صور توں میں اس کو مشتری کی طرف سے نقصان پہچتا ہے۔(مثلا مشتری ایک سال کے بعد یہ کہہ دیتا ہے کہ میں یہ مکان وغیرہ نہیں لیتا میرا بیعانہ واپس کرو اب اس صورت میں اگر مشتری کے ساتھ بات کی ہوتی تو ممکن تھا مکان کوئی اور شخص خرید لیتا یا مکان کرایہ پر لگ جاتا اور کرایہ ایک سال تک آتا رہتا وغیرہ)؟ اگر بیعانہ لینا یا ضبط کرنا جائز ہے تو فبہا ، اور اگر نہیں تو کیا کوئی اور ایسی صورت ہے کہ بائع کو اس قسم یا اور کسی نقصان سے بچایا جائے جو مشتری کے بائع کے ساتھ معاہدہ کرنے کی وجہ سے بائع کو ہوتا ہے۔

    جواب نمبر: 6381

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1544=1194/ ھ

     

    بیعانہ جزو ثمن ہوتا ہے اور جب بیع ختم ہوگئی تو بائع کا حق نہ کل ثمن میں رہا نہ ہی جزو ثمن میں ہے، پس اس کا لوٹا دینا واجب ہے، رہا یہ امر کہ بائع کو نقصان ہوا یا ہوتا ہے، سو اول تو یہ دور کا احتمال ہے اور جس طرح نقصان کا احتمال ہے اسی طرح منافع کثیرہ کی بھی تو توقع ہے، مثلاً ایک لاکھ روپئے میں معاملہ طے ہوا، دس ہزار بیعانہ سے لیا بعد میں معاملہ ختم ہوگیا، دس ہزار واپس کردیئے، پھر مبیع کو بائع نے بیچ دیا اتفاق سے دوسرے گاہک نے ڈیڑھ لاکھ میں اس کو خرید لیا تو ایسی صورت میں بائع کا کیا نقصان ہوا؟ اور اگر نقصان والا احتمال قوی بھی مان لیا جائے تب بھی کچھ اشکال نہیں، تمام تجارات میں نفع نقصان ہروقت ہی محتمل رہتے ہیں، مع ہذا بائع کو شروع ہی سے اختیار ہے وہ کہہ دے کہ میں ادھار نہیں بیچتا میں تو اتنے روپئے میں نقد بیچتا ہوں، ایسی صورت میں جس نقصان کا احتمال ہے وہ ہاتھوں ہاتھ نقد لین دین میں مرتفع ہوجاتا ہے اور بائع کو اس کا اختیار شریعت مطہرہ میں کلی طور پر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند