• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 611669

    عنوان:

    جلدی رقم ادا كرنے كی صورت میں رقم كا كچھ حصہ معاف كرنا؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے پانچ مرلہ پلاٹ قسطوں کے حساب سے خریدا۔ ایک لاکھ پچاس ہزار پیشگی دے کر بقیہ رقم آٹھ ہزار روپے ماہانہ ادائیگی طے ہوئی۔ پراپرٹی ڈیلر نے یہ بھی بتایا کہ اگر آپ فی ماہ آٹھ ہزار کے بجائے ایک لاکھ دیتے رہے تو ہر لاکھ روپے پر آپ کو دس ہزار رعایت ملے گا۔ کیا اس قسم کا سودا کرنا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو ٹھیک اور اگر جائز نہیں تو سودا کو صحیح نہج پر لانے کے لیے کونسی صورت اختیار کی جائے ؟

    جواب نمبر: 611669

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1329-1142/L=11/1443

     صورتِ مسؤولہ میں قسط وار رقم كی ادائیگی كی ایك مدت مقرر ہوگئی ہے ‏، تو اب اس میں یہ معاملہ كرنا كہ اگر تم ایك لاكھ دیدو ‏، تو ہر لاكھ پر دس ہزار روپیہ كی بچت ہوجائیگی ‏، یہ شكل جائز نہیں ہے؛ بلكہ جو معاملہ طے ہوا ہے یعنی فی ماہ آٹھ ہزار روپے اسی كے مطابق عمل كیا جائے۔

    قال مالك: والأمر المكروه، الذي لا اختلاف فيه عندنا. أن يكون للرجل على الرجل الدين، إلى أجل. فيضع عنه الطالب، ويعجله المطلوب.قال مالك: وذلك عندنا بمنزلة الذي يؤخر دينه بعد محله، عن غريمه. ويزيده الغريم في حقه. قال: فهذا الربا بعينه. لا شك فيه.[موطأ مالك ت الأعظمي 4/ 971]قال محمد: وبهذا نأخذ من وجب له دین علی انسان إلی أجل ، فسأل أن یضع عنه ویعجل له مابقي، لم ینبغ ذلك؛ لأنه یعجل قلیلا بكثیر دینا، فكأنه یبیع قلیلا نقدا بكثیر دینا. وهو قول عمر بن الخطاب وزید بن ثابت وعبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ، وهو قول أبي حنیفة.(موطأامام محمد:۱/ ۳۳۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند