• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 610582

    عنوان:

    تجارت میں کتنے فیصد نفع لے سکتے ہیں

    سوال:

    اسلام کے حساب سے تجارت میں کتنا فیصد فائدہ لینا چاہیے؟ کوئی کہتا ہے کہ مال میرا ہے ہم اس کو دو روپے میں بیچیں چاہئے دو سو میں۔ تجارت کے اُصول کی وضاحت کریں۔

    جواب نمبر: 610582

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1097-860/L=8/1440

     شریعتِ مطہرہ نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے بلکہ اس کو بازار کے اتار چڑھاؤ پر چھوڑدیا ؛البتہ جھوٹ دھوکہ دہی سے بچنے کی ترغیب دی ہے ؛لہذا عاقدین اگر جھوٹ ودھوکہ دہی سے بچتے ہوئے باہمی رضامندی سے کسی بھی قیمت پر معاملہ کرلیں تو اس کی گنجائش ہوگی خواہ اس میں کتنا ہی نفع ہو ؛البتہ اس قدر نفع لینے کو فقہاء نے نامناسب اور خلافِ مروت کہا ہے جو غبنِ فاحش کے دائرے میں آتا ہو اور غبن فاحش یہ ہے کہ بازار میں جو زائد سے زائد قیمت چل رہی ہو اس سے زائد نفع لیا جائے، اسی کو فقہاء نے ’’مالایدخل تحت تقویم المقومین‘‘ سے تعبیر کیا ہے ،یعنی ایک چیز کی قیمت کا اندازہ کئی ماہر لوگ لگائیں اور کسی کا تخمینہ اس حد تک نہ پہنچے۔

    عن أنس رضی اللہ عنہ قال: غلا السعر علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالوا: یا رسول اللہ! قد غلا السعر فسعّر لنا، فقال: إن اللہ ہو المسعّر القابض الباسط الرّازق․ (ابن ماجة: ص۱۵۹) وفی رد المحتار:إن مالا یدخل تحت تقویم المقومین فاحش. (ردالمحتار:۷/۲۳۰)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند