• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 609445

    عنوان:

    کیا ڈراپ شیپنگ حلال ہے یا حرام؟

    سوال:

    سوال : میں اس حدیث سے بخوبی واقف ہوں جس میں اس چیز کو بیچنے سے منع کیا گیا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے ، اور میں نے اس موضوع کے تمام جوابات آپ کی ویب سائٹ پر پڑھے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جس نے بھی اس کے بارے میں پوچھا اس نے اس مسئلے کی صحیح وضاحت نہیں کی۔ اس لیے میں اس معاملے کے بارے میں سب کچھ بیان کرنے جا رہا ہوں، تاکہ میں اپنے دماغ کو سکون پہنچا سکوں، اور اگر یہ حرام ہو تو ترک کر دوں۔ ڈراپ شپنگ کی ایک مثال یہ ہے : ایمیزون نامی ایک آن لائن اسٹور ہے ، جس پر لوگ حقیقی معنوں میں اپنی مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ کپڑے بیچتا ہے ۔ ای بے نامی ایک اور آن لائن اسٹور ہے ، جو کسی کو بھی اپنی اشیاء فروخت کرنے کی اجازت دیتا ہے ، جیسا کہ پہلی ویب سائٹ، لیکن دوسری ویب سائٹ کے زیادہ گاہک ہیں اور زیادہ توجہ مرکوز ہے ۔ اس لیے ڈراپ شپنگ کی صورت میں، کوئی شخص دوسری ویب سائٹ پر اپنے لیے ایک اسٹور کھول سکتا ہے ، جو پہلی ویب سائٹ پر موجود لباس کو تھوڑی زیادہ قیمت پر فروخت کے لیے پیش کر سکتا ہے ۔ جب کوئی گاہک کوئی چیز خریدتا ہے تو میں اس کے پیسے لیتا ہوں اور میں Amazon سے کپڑے خریدتا ہوں، پھر میں اسے براہ راست گاہک کے پتے پر بھیج دیتا ہوں، اور قیمت میں فرق رکھتا ہوں، جو کہ اب تک حرام ہو سکتا ہے ۔ لیکن اب وہ نکتہ آتا ہے جو اس مسئلہ پر حتمی فیصلہ دینے میں مددگار ہو سکتا ہے : جب گاہک مجھے ادائیگی کرتا ہے ، میں نے ابھی تک اس کی رقم حاصل نہیں کی اور اسے سامان خریدنے میں استعمال کیا، جیسا کہ تمام شیوخ کا خیال ہے ۔ بلکہ رقم ویب سائٹ پر معطل رہتی ہے ، اور میں جا کر پہلی ویب سائٹ سے اپنے پیسے سے سامان خریدتا ہوں، اور میں اسے خریدار کو بھیج دیتا ہوں۔ جب یہ اس تک پہنچتا ہے تو مجھے وہ رقم مل جاتی ہے جو اس نے ویب سائٹ پر بھیجی تھی۔ مثال کے طور پر، ایمیزون پر دس ڈالر میں ایک جیکٹ ہے ، اور میں اسے ای بے پر بارہ ڈالر میں رکھتا ہوں۔ ایک گاہک ای بے پر جاتا ہے اور جیکٹ کو پسند کرتا ہے ، اور وہ اسے بارہ ڈالر میں خریدتا ہے ، لیکن میں یہ رقم ویب سائٹ سے اس وقت تک نہیں نکال سکتا جب تک ڈیل ہو جائے اور گاہک کو جیکٹ نہ مل جائے ۔ اس لیے میں جیکٹ اپنے پیسے سے خریدتا ہوں، جس کا مطلب ہے کہ میں اس کا مالک بن جاتا ہوں، اور میں اسے براہ راست خریدار کے پتے پر بھیج دیتا ہوں۔ جب یہ اس تک پہنچتا ہے تو سودا ہو جاتا ہے ۔ اس طرح یہ رقم میرے پاس دکان میں موجود رہتی ہے ، لیکن خریدار کے حقوق کے تحفظ کے لیے میں اسے ایک ہفتے کے علاوہ واپس نہیں لے سکتا، تاکہ گاہک کو موقع دیا جائے کہ وہ چاہے تو چیز واپس کر دے ۔ یہ اسے اپنے چیٹ کیے جانے کے امکان کے خلاف مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ کیا اس طریقے سے لین دین کرنا حلال ہے یا حرام؟

    جواب نمبر: 609445

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 454-119/TH-Mulhaqa=09/1443

     کسی منقولی چیز کو فروخت کرنے کے لیے جیسے یہ ضروری ہے کہ وہ چیز فروخت کرنے والے کی ملکیت ہو، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پہلے فروخت کرنے والے کے قبضہ میں آجائے ، پھر وہ کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کرے، اگر وہ خرید نے کے بعد قبضہ سے پہلے کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کرتا ہے تو یہ جائز نہیں، ایسی بیع شریعت کی نظر میں فاسد ہوتی ہے ، پس ڈراپ شپنگ میں اگر آپ کی بیان کردہ توجیہ صحیح تسلیم کرلی جائے تب بھی دوسری خرابی سے چارہ نہیں؛ لہٰذا ڈراپ شپنگ جائز نہیں۔

    وشرط المعقود علیہ ستة:کونہ موجوداً مالا متقوما مملوکاً في نفسہ وکون الملک للبائع فیما یبیعہ لنفسہ وکونہ مقدور التسلیم؛ فلم ینعقد بیع المعدوم،………ولا بیع ما لیس مملوکا لہ وإن ملکہ بعدہ ……، وأما الثالث وھو شرائط الصحة فخمسة وعشرون، منھا عامة ومنھا خاصة فالعامة لکل بیع شروط الانعقاد المارة ……والخاصة: معلومیة الأجل في البیع الموٴجل ثمنہ والقبض في بیع المشتري المنقول إلخ (رد المحتار، أول کتاب البیوع، ۷: ۱۵، ۱۶ ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۴: ۲۱ - ۲۳، ت: الفرفور، ط: دمشق نقلاً عن البحر)۔

    وفی المواھب: وفسد بیع المنقول قبل قبضہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، ۷:۳۷۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۵: ۱۵۴،ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند