• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 607500

    عنوان:

    ادھار قسطوں پر موبائل فروخت کرنا

    سوال:

    میرا موبائل فون کا کاروبار ہے میں اب ادھار یعنی دس ماہ کی قسطوں پر موبائل دیتا ہو اور 10 ماہ کا 30 پرسٹ نفع لیتا ہو 30 پرسنٹ ایڈوانس لیتا ہوں باقی موبائل کی قیمت کی دس قسط بنا کر دیتا ہوں اگر گاہک ایک ماہ قسط شارٹ بھی کر دے کسی قسم کے اضافی پیسے نہیں لیتا ہاں کچھ گاہک تو 10 ماہ گزر جانے کے بعد بھی پیسے دیتے رہتے ہیں ان سے بھی کسی قسم کے اضافی پیسے نہیں لیتا نا کوئی شرط ہوتی ہے اس بارے میں بتائیں کہ کیا یہ کاروبار جائز ہے تو جاری رکھو اگر سود میں آتا ہے تو ترک کردوں؟

    جواب نمبر: 607500

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:124-75/H-Mulhaqa=4/1443

     اگر آپ (بائع) خود ادھار قسطوں پر ۳۰/ پرسنٹ نفع کے ساتھ موبائل فروخت کرتے ہیں، یعنی: ادھار معاملے میں بینک یا فائنانس کمپنی کا واسطہ نہیں ہوتا ہے اور خرید وفروخت کی مجلس میں موبائل کی کل قیمت، ہر قسط کی مقدار اور ادائیگی کی مدت تینون چیزیں واضح طور پر متعین ہو جاتی ہیں اور کسی قسط کی تاخیر میں کسی اضافے کی شرط نہیں ہوتی تو یہ شرعاً معاملہ جائز ہے، اس میں کچھ سود نہیں، اور اگر ادھار معاملے میں بینک یا فائنانس کمپنی کا واسطہ ہوتا ہے تو اس صورت میں خریدار اور بینک یا فائنانس کمپنی کے درمیان جو سودی قرض کا معاملہ ہوتا ہے، وہ ناجائز وحرام ہے؛ لہٰذا سودی قرض لے کر موبائل خریدنے سے احتراز چاہیے۔

    وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا أو قال: إلی شہر بکذا وإلی شہرین بکذا فہو فاسد؛ لأنہ لم یعاملہ علی ثمن معلوم، ولنھي النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن شرطین في بیع … وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا حتی قاطعہ علی ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہو جائز؛ لأنہا ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد (المبسوط للسرخسي،۱۳:۷،۸، ط: دارالمعرفة بیروت لبنان)۔

    ”المادة ۲۴۵“: البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح۔ ”المادة ۲۴۶“: یلزم أن تکون المدة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط (مجلة الأحکام العدلیة مع شرحہا :درر الحکام لعلي حیدر، ۱:۲۲۷، ۲۲۸۔ط: دار عالم الکتب، الریاض)۔

    أما الأئمة الأربعة وجہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد (بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة، ۱:۷)۔

    قال اللّٰہ تعالی:﴿وأحل اللّٰہ البیع وحرم الربا﴾ (سورة البقرة، رقم الآیة: ۲۷۵)۔

    عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: ”لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہوسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء“ (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي: بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل، ۲: ۵۰)۔

     

    الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸ - ۴۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۵: ۲۱۹ - ۲۲۳، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند