• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 606217

    عنوان:

    دودھ کے بدلے جانور کو کھانا کھلانا اور دیکھ بھال کرنا؟

    سوال:

    مولانا فیصل احمد، کلکتہ، حضرت ، کچھ مسائل تھے اگر رہنمائی فرما دیتے تو بڑی مہربانی ہوتی۔ ایک آدمی ہر سال عید الاضحی کے فورا بعد آنے والے سال کیلئے گائے خرید لیتا ہے ۔بیچنے اور خریدنے والے میں دوستی ہے ۔اب چوں کہ ایک سال تک گائے پالنا مشکل ہوتا ہے ، تو خریدنے والا ، بیچنے والے کہ پاس گائے رکھ دیتا ہے اور وہ اسے کھلاتا ہے اور خود دودھ سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔۔۔یعنی خریدنے والے کا کھلانے کا خرچ بچ گیا اور بیچنے والے کو دودھ مل گیا۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ؛

    1) کیا ایسا عمل جائز ہوگا؟ یا اجارہ میں مان کر اسے نا جائز کہا جائیگا؟

    2) اگر یہ نا جائز ہے ، تو کیا ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ گائے خریدنے والا دودھ کہ بارے میں عاریت کی نیت کر لے ، کہ اس سے بیچنے والے کیلئے دودھ مفت ہو جائیگا، اور اور بیچنے والا اپنی محنت اور خرچ کو عاریة/ہدیة کی نیت کر لے اس سے خریدنے والے کیلئے مفت ہو جائے گا۔کیا یہ طریقہ جائز ہوگا؟

    3) جانور کی قیمت 50000 ہو اور اور بیچنے والا اس نیت سے بیچتا ہے کہ وہ ایک سال تک گائے کو کھلائیگا اسلئے وہ 70،000 قیمت بتلاتا ہے تو کیا جانور خریدتے وقت بیچنے والا خود ہی کہے کہ ایک سال تک اسے کھلانا میری ذمداری رہیگی تو یہ طریقہ جائز ہوگا؟ جیسا کہ آجکل کہ جدید فتاوی میں یہ بات ملتی ہے کہ اگر کوئی کمپنی سامان بیچتے وقت کچھ رقم زائد ایکسٹینڈیڈ وارینٹی (extended warranty) کے نام سے لیتی ہے تو جائز ہے ، تو کیا یہاں بھی اسی مسئلے کو ملحوظ رکھا جائیگا؟

    4) کیا اگر خریدار یہ شرط لگائے کہ جانور میں خریدوں گا پر ایک سال تک تمہیں پالنا ہوگا، اور بائع راضی بھی ہو جائے تو ایسا کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟ جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب نمبر: 606217

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:142-125/N=2/1443

     (۱): یہ بہ ظاہر اجارہ ہی ہے اورناجائز ہے، اور اگر یہ اجارہ بیع میں شرط ہو تو بیع بھی فاسد ہوگی۔

    (۲): جب جانور کی خدمت دودھ کے عوض ہے؛ جیسا کہ ظاہر ہے تو عاریت کی تاویل درست نہیں؛ کیوں کہ عاریت میں معاوضہ کی شکل نہیں ہوتی، نیز معاملات میں معانی ومطالب کا اعتبار ہوتا ہے، محض الفاظ کا نہیں ۔

    (۳):صورت مسئولہ میں بیع میں ایک سال تک جانور کو چارہ کھلانے اور اس کی دیکھ بھال کی ذمے داری، مقتضائے عقد کے خلاف ہے اور یہ شرط فاسد ہے اور یہ شرط چوں کہ غیر متعارف ہے؛ لہٰذا شروط متعارفہ پر اسے قیاس کرنا درست نہ ہوگا، نیز اس بیع میں اس شرط کی ضرورت بھی نہیں ہے؛ جب کہ الیکٹرانک اشیا وغیرہ میں چوں کہ اندرونی سسٹم کا معاملہ غیر واضح ہوتا ہے، وہ ایک دو روز بعد بھی خراب ہوسکتا ہے اور یہ اشیا قیمت کے اعتبار سے کافی مہنگی ہوتی ہیں؛ اس لیے اُن میں بنیادی چیز یعنی: موٹر وغیرہ کی وارنٹی کی شرط ایک درجے میں بائع اور مشتری دونوں کے لیے مجبوری ہے؛ اسی لیے یہ شرط اوپر کمپنی کی طرف سے ہوتی ہے، محض بائع کی طرف سے نہیں اور شرط کی بنیاد پر جو منفعت ملتی ہے، وہ در اصل کمپنی کی طرف سے ہوتی ہے، اس میں بائع کا کچھ نقصان نہیں ہوتا۔

    (۴): ایک سال تک جانور پالنے کی شرط شرط فاسد ہے؛ لہٰذا اگر یہ شرط مشتری لگائے تب بھی بیع فاسدہوگی


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند