• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 606009

    عنوان:

    شراکت کی ایک شکل

    سوال:

    مسئلہ : کیا فرماتے ہیں حضراتِ اہل افتا مسئلہ ہذا کے بارے میں؟ ایک کرانے (پرچون) کی دکان میں تین لوگ شریک ہوے بایں طور کہ دو لوگوں نے اس کاروبار میں ایک دو لاکھ روپے لگائے اور تیسرے آدمی نے پچاس ہزار روپے لگائے، پہلے دو لوگ اس کاروبار میں پیسہ لگانے کے ساتھ ساتھ اس میں کام بھی کرتے ہیں؛ لیکن تیسرے شخص نے صرف پیسے لگائے ہیں کام نہیں کرتا، (1) کیا اس طرح کرنا جائز ہے (2)نفع کی بات جب آئی تو کاروبار میں شریک مذکورہ تینوں لوگوں کے درمیان یہ طے ہوا کہ ہر روز دکان کے غلے سے ایک ہزار روپے نکالے جائیں اور مسلم فنڈ میں جمع کر دیے جائیں جب مہینہ ختم ہو جائے تو مسلم فنڈ میں جمع کردہ رقم کو نکال لیا جائے اور آپس میں تقسیم کر لیا جائے اس طرح کہ چالیس فی صدی کے حساب سے پہلے دو لوگ لے لیں (جن کے دو لاکھ روپے تھے) اور بیس فی صدی کے حساب سے تیسرا شخص (جس کے پچاس ہزار روپے ہیں) لے لے، تینوں کے درمیان یہی بات بھی طے ہوئی کہ اگر کاروبار میں کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ بھی اسی طرح تقسیم ہوگا تو کیا اس طرح کا معاملہ کرنا اور اس میں شریک ہونا جائز ہے یا نہیں؟ جواب سے مطلع فرماکر مشکور و ماجور ہوں۔

    جواب نمبر: 606009

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:58-14T/sn=2/1443

    Fatwa:34-44T/sn=2/1443

     شراکت میں نفع کی تعیین اس طرح ہونی چاہئے کہ کاروبار میں جس قدر نفع ہوگا، اس کا اتنا فیصد فلاں کو اور اتنا فلاں کو ملے گا، اگر کوئی شریک رقم کے ساتھ ساتھ کام بھی کرے تو اس کا نفع اس کی رقم کے تناسب سے زیادہ بھی متعین کیا جاسکتا ہے ؛ سوال میں نفع کا جو فیصد شرکا کے لئے مقرر کیا گیا ہے وہ تو درست ہے ؛ لیکن یہ فیصدی حصے “نفع” میں سے ہونا چاہئے ، نہ یہ کہ کاvوبار کے اصل سرمایہ سے اتنا الگ کرلیا جائے اور اس میں سے فلاں کو اتنا فلاں کو اتنا ملے گا، جیسا کہ صورت مسئولہ میں کیا گیا ہے ؛ اس لئے ان حضرات کو چاہئے کہ اس طرح معاہدہ کریں کہ (مثلا)ہر مہینے کے اخیر میں کاروبار کا حساب کتاب جائے گا، اس میں جو نفع ظاہر ہوگا، اس کا ایک چالیسواں حصہ فلاں کو اور دوسرا چالیسواں حصہ فلاں کو اور بیسواں حصہ فلاں کو ملے گا ۔ نیز یہ بھی معلوم رہے کہ شراکت میں اگر نقصان ہو تو بہرحال اپنے سرمایہ کے تناسب سے شرکا برداشت کریں گے ، نقصان کو بھی نفع کے تناسب کے ساتھ جوڑنا (اگرچہ نفع کا تناسب سرمایہ کے تناسب سے ہٹ کر متعین کیا گیا ہو) درست نہیں ہے ؛ لہذا آپ حضرات مذکورہ بالا طریقے پر نفع نقصان کا معاہدہ کرلیں ۔

    ... إذا شرطا الربح علی قدر المالین متساویا أو متفاضلا، فلا شک أنہ یجوز ویکون الربح بینہما علی الشرط سواء شرطا العمل علیہما أو علی أحدہما والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا؛ لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال، وإن کان المالان متساویین فشرطا لأحدہما فضلا علی ربح ینظر إن شرطا العمل علیہما جمیعا جاز، والربح بینہما علی الشرط فی قول أصحابنا الثلاثة إلخ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع 5/ 83،فصل فی بیان شرائط جواز أنواع الشرکة، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند