• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 605905

    عنوان:

    سوال میں مذکور آن لائن تجارت کا حکم

    سوال:

    سوال : محترم مفتیان کرام ، گزارش ہے کہ درج ذیل سوال کا جواب عنایت فرمادیں، نوازش ہوگی: ہمارا کام جیولری کا ہے، ہماری جیولری آن لائن بھی بیچی جاتی ہیں، جس کا طریقہ کار کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ہم دوکاندار کسی کو کہہ دیتے ہیں کہ ہماری جیولری کی تصاویر لیکر ان کی سوشل میڈیا وغیرہ میں تشہیر کریں، پھر جب اسے آرڈر ملتے ہیں تو وہ ہمیں آرڈر کرتا ہے جسے ہم اس تشہیر کرنے والے کے ایڈریس پر بھیج دیتے ہیں وہاں سے وہ اپنے خریدار کو بیچ دیتا ہے۔ خریدار تک پہنچانے کی ذمہ داری پھر اس کی ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تشہیر کرنے والا کسی دوسرے شہر مثلا حیدر آباد میں رہتا ہے، اور ہم دوکاندار کراچی میں، اور اسے کسی دوسرے شہر مثلا میر پور خاص سے آرڈر ملتا ہے، تو وہ بجائے اس کے کہ پہلے اپنے پاس مال منگواکر پھر آگے اپنے خریدار کو ارسال کرے وہ ہمیں کہ دیتا ہے کہ آپ یہ مال میرپور خاص بھجوادیں۔ ہم ٹی سی ایس کے خصوصی بزنس اکاؤنٹ کے ذریعہ اسے بھجوادیتے ہیں۔ اور جب مشتہر کے خریدار کی طرف سے ہمیں پیسے موصول ہوجاتے ہیں تو ہم مشتہر سے اپنا حساب کلئیر کرلیتے ہیں۔ ہمارے مشتہر کے ساتھ آرڈر کے معاہدہ نامہ میں یہ لکھا ہوتا ہے:

    1. تمام پرائز ڈیلیوری چارجز کے بغیر ہیں۔ 2. اپنے آرڈر بک کروانے کے ایک گھنٹہ بعد وصول کرسکتے ہیں۔ 3. رائیڈر کو سامان کی تفصیل دیکر بھیجیں تاکہ شاپ پر تصویر دکھا کر مال لے لے۔ 4. آرڈر بک کرنے کے تین دن کے اندر اپنا آرڈر پک کرلیں 5. آرڈر بک کرنے سے پہلے سٹاک کنفرم کرلیں۔ 6. ہم آپ کی طرف سے آپ کے کسٹمر کو آرڈر ڈیلیور کردیں گے۔کراچی کے ڈیلیوری چارجز ۱۲۰روپے فی نصف کلو۔پاکستان کے اندر ڈیلیوری چارجز ۲۲۰روپے فی نصف کلو۔ 7. کیش آن ڈیلیوری کی صورت میں آپ کی رقم اس وقت آپ کو دی جائے گی جب ہمارے اکاؤنٹ میں موصول ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ (1) کیا اس طرح کا معاملہ کرنا درست ہے؟ نیز اگر درست نہیں تو انہیں درست کیسے کیا جاسکتا ہے۔ (2) اگر حیدر آباد والامشتہر میرپور خاص کے اپنے خریدار کے لئے ہمارے ٹی سی ایس کے خصوصی اکاؤنٹ سے آرڈر بھجواتا ہے اور راستے میں مال کو نقصان پہنچتا ہے تو شرعی نقطہ نظر سے نقصان کی ذمہ داری کس پر ہونی چاہئے؟ واضح رہے کہ ہم صرف اس کے کہنے پر یہ آرڈر بھیجتے ہیں، اور اس کا اس سارے عمل میں کوئی رسک نہیں ہورہا ہے۔ اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ٹی سی ایس مخصوص اکاؤنٹ کمپنی کی پالیسی پیچیدگیوں کی وجہ سے حیدر آبادوالا خود نہیں بنا سکتا ہے، اس لئے ہم اس سے یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنے طور پر ٹی سی ایس بک کرلیں، اور یہاں سے مال وصول کرلیں۔

    جواب نمبر: 605905

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:3-44T/L=3/1443

     مذکورہ بالا صورت میں سوال سے پتہ چلتا ہے کہ مشتہر کی حیثیت بائع کی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سامان کو اولاً اپنے پاس منگانے کے بعد اس کو آگے فروخت کرتا ہے اور اس میں پہلی صورت میں خرابی یہ ہے کہ وہ ایسی چیز کو فروخت کررہا ہے جو اس کے پاس موجود نہیں جبکہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو اس کا بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہے اور دوسری صورت میں مزید خرابی یہ بھی ہے کہ مبیع کو اس پر قبضہ سے پہلے آگے فروخت کررہا ہے جبکہ منقولی اشیاء پر قبضہ سے پہلے اس کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں؛ البتہ جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بائع مال اپنے پاس پہنچنے سے پہلے بیع نہ کرے، بلکہ وعدہٴ بیع کرے،بیع مال پہنچنے کے بعد کرے اور وہ مشتری سے یہ کہہ دے کہ یہ چیز اگر آپ مجھ سے خریدیں گے تو میں آپ کو اتنے کی دوں گا اور جب مال پہونچ جائے تو ازسرِ نو معاملہ کرلے اور یہ بھی صورت ہوسکتی ہے کہ وہ سابقہ طے شدہ ریٹ پر سامان آگے بھیج دے اگر مشتری اسکو لے لیتا ہے تو تعاطی کے طور پر یہ بیع درست ہوجائے گی، اور دوسری شکل میں یہ بھی کرنا ہوگا کہ مال کو آگے بھیجنے سے پہلے وہاں اپنے کسی آدمی کو وکیل بنادے جو اس پر قبضہ کرلے اور پھر وہ مشتری کے پاس خود یا آپ کے توسط اور آپ کے ٹی سی اکاؤنٹ کے ذریعہ مال کو مشتری تک بھیجوادے، اور ان دونوں شکلوں سے ہٹ کر اگر مشتہر بطور دلال کام کرے مثلاً: وہ گراہک تک آپ کو پہونچائے اور مشتری کو سامان آپ فروخت کریں اور وہ اپنی اجرت مقرر کرکے خواہ آپ سے یا مشتری سے یا دونوں سے لے لے تو اس کی گنجائش ہوگی۔جہاں تک خریدار کے ضمان و قبضہ سے پہلے مبیع کے ہلاک ہونے کا تعلق ہے تو اگر مال پہونچانے کی ذمہ داری بائع کی ہے جیساکہ سوال سے پتہ چل رہا ہے تو مال ہلاک ہونے کی صورت میں نقصان کا ذمہ دار بھی بائع ہوگا خریدار پر قبل القبض کوئی ضمان و ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ۔

    نوٹ: آپ نے جو معاہدہ نامہ لکھا ہے اس میں مضائقہ نہیں ، تراضی طرفین سے اس طری کے معاہدہ کی گنجائش ہے۔

    عن ابن عباس، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یقبضہ ، قال ابن عباس: وأحسب کل شیء بمنزلة الطعام(صحیح مسلم 3/ 1160) لأن بیع المنقول قبل القبض لا یجوز،(المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی 7/ 46) قَالَ - رَحِمَہُ اللَّہُ - (لَا بَیْعُ الْمَنْقُولِ) أَیْ لَا یَجُوزُ بَیْعُ الْمَنْقُولِ قَبْلَ الْقَبْضِ لِمَا رَوَیْنَا وَلِقَوْلِہِ - عَلَیْہِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - إذَا ابْتَعْت طَعَامًا فَلَا تَبِعْہُ حَتَّی تَسْتَوْفِیَہُ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَلِأَنَّ فِیہِ غَرَرَ انْفِسَاخِ الْعَقْدِ عَلَی اعْتِبَارِ الْہَلَاکِ قَبْلَ الْقَبْضِ؛ لِأَنَّہُ إذَا ہَلَکَ الْمَبِیعُ قَبْلَ الْقَبْضِ یَنْفَسِخُ الْعَقْدُ فَیَتَبَیَّنُ أَنَّہُ بَاعَ مَا لَا یَمْلِکُ وَالْغَرَرُ حَرَامٌ (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیة الشلبی 4/ 80) قال فی التتارخانیة: وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن فی کل عشرة دنانیر کذا فذاک حرام علیہم. وفی الحاوی: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان فی الأصل فاسدا لکثرة التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجة الناس إلیہ(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/ 63) اور شرح منظومہ ابن وہبان میں ہے: لو سعی البائع بینہما وباع المالک بنفسہ ینظر إلی العرف إن کانت الدلالة علی البائع فعلیہ وإن کانت علی المشتری فعلیہ وإن کانت علیہما فعلیہما. (شرح منظومة ابن وہبان:2/78، الوقف المدنی الخیری) المبیع إذا ہلک فی ید البائع قبل أن یقبضہ المشتری یکون من مال البائع ولاشئی علی المشتری... وإذا ہلک المبیع بعد القبض ہلک من مال المشتری ولاشئی علی البائع.( شرح المجلة خالد الأتاسی:2/223- 225) (سئل) فیما إذا بعث المدیون مبلغ الدین مع رسولہ لدائنہ فہلک مع الرسول فہل یہلک علی المدیون؟ (الجواب) : نعم بعث المدیون المال علی ید رسول فہلک فإن کان رسول الدائن ہلک علیہ وإن کان رسول المدیون ہلک علیہ أشباہ من الوکالة.(العقود الدریة فی تنقیح الفتاوی الحامدیة 1/ 343)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند