• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 604732

    عنوان:

    باغ میں پھل آنے سے پہلے خریداری کا معاملہ کرنا؟

    سوال:

    میرا سوال یہ ہے : کہ زید(عقیل)کا دس بیگھہ کا گاؤں میں آم کا باغ ہے لیکن زید شہر (لکھنؤ) میں رہتا ہے اور اس کا کام بحمداللہ بہت اچھا چل رہا ہے جس کی مشغولیت کی وجہ سے باغ کی دیکھ ریکھ کیلئے وقت نہیں مل پاتا ہے اور کوئی مزدور بھی نہیں ملتا ہے کیونکہ وہاں سب کے پاس باغات ہیں مجبوری کے تحت زید اپنے باغ کو بیچتا ہے وہ بھی دو سال کے لیئے اور اس میں جو گڑائی، دھلائی، سنچائی، اور دوا چھڑکائی کی جو لاگت آتی ہے اسکو کم کر کے ہی بیچتا ہے اور مشتری دو سال کے بعد اسکی قیمت ادا کرتا ہے اور پھر اگلے دو سال کے لیئے سودا ہو جاتاہے ۔ سوال(۱) : اس طرح خرید و فروخت کرنا کیسا ہے ۔؟ سوال(۲): اور اس طرح (شء معدوم کی بیع و شراء کی بنیاد پر بازار میں آیا ہوا پھل یعنی آم )عوام کے لیئے خرید کر استعمال کرنا کیسا ہے ۔؟ سوال(۳): اس باغ پر زکٰوة اگر ہو گی تو کس طرح ہو گی؟

    جواب نمبر: 604732

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 927-252T/D=10/1442

     (۱) سوال میں مذکور باغ بیچنے کی صورت درحقیقت باغ کے پھل بیچنے کی ہے۔ اور صورت مسئولہ میں باغ میں ابھی پھل آیا نہیں، لہٰذا یہ معدوم کی بیع ہوئی جو کہ ناجائز ہے کیونکہ بیع کے وقت مبیع کا موجود ہونا ضروری ہے اور یہاں پھل کا ابھی وجود ہی نہیں ہے پس یہ بیع (خریدو فروخت) ناجائز ہے۔ اگر اس طرح معاملہ ہوا ہے تو اسے ختم کیا جائے۔

    (۲) شریعت میں معدوم کی بیع باطل ہے جس کا حکم یہ ہے کہ مشتری کے لئے بائع کو مبیع واپس کرنا ضروری ہے اس میں قبضہ کے بعد بھی مشتری کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی، لہٰذا کسی کے بارے میں معلوم ہو کہ اس نے مذکورہ طریقہ (بیع فاسد کے طور پر ) پھل خریدے ہیں تو اگلے خریدار کو اس سے یہ پھل خریدنا جائز نہیں۔ لیکن عام طور پر بازار میں فروخت ہونے والے پھلوں کے بارے میں علم نہیں ہوتا، اس لئے عام حالات میں بازار سے پھل خریدنا جائز ہوگا اور اس سلسلے میں تحقیق و تفتیش واجب نہیں۔

    (۳) باغ میں زکاة نہیں؛ بلکہ عشر یا نصف عشر واجب ہوتا ہے۔ اگر باغ عشری زمین میں ہے تو عشر باغ کے مالک پر واجب ہوگا کیونکہ پھل کا اصل مالک وہی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند