• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 604204

    عنوان:

    مذكورہ صورت میں بیس ہزار كا حق دار كون ہے؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی نئی موٹر سائیکل 6 ماہ کے ادھار پر 20 ہزار نفع کے ساتھ ایک شخص کو بیچی،پھر بائع ایک تیسرے شخص کے پاس گیا اور اس کو کہا کہ میں نے فلاں کو اپنی بائیک اتنے نفع کے ساتھ بیچی ہے اب آپ مجھے نئی موٹر سائیکل دلوادیں، پہلے والی بائیک کا جو نفع آئے گا وہ میں آپ کو دیدونگا،پھر وہ تیسرا شخص وقتاً فوقتاً ان سے پوچھتا رہا کہ آپ یہ بائیک مجھ سے کب لیں گے ؟ وہ یہ کہتا رہا کہ میں ابھی گزارا کررہا ہوں بعد میں لے لونگا،اتنے میں 6ماہ کی مدت پوری ہوگئی اور انہوں نے ان سے موٹرسائکل نہیں لی، اور پہلے والے مشتری نے پیسے بھی دے دیے ، اب وہ بائع کہہ رہا ہے کہ میں نے تیسرے شخص سے موٹرسائیکل لی ہی نہیں، اب پوچھنا یہ کہ وہ وہ نفع(20ہزار)جو ملا ہے اس کا کیا کریں؟ تیسرے شخص کو دیں یا خود اپنے استعمال میں لائیں؟ یا کوئی اور صورت؟

    جواب نمبر: 604204

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:840-729/L=10/1442

     مذکورہ بالا صورت میں جب تیسرے شخص نے بائع کو نئی موٹر سائیکل نہیں دلوائی تو وہ اجرت کا بھی مستحق نہیں ہوا؛لہذا جو بیس ہزار کا نفع ہوا ہے وہ بائع کا ہے بائع اسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے ،تیسرے شخص کو دینے کی ضرورت نہیں۔

    قال للدلال إعرض ضیعتی فعرض ولم یقدر علی إ تمام العمل فباعہا آخر قال أبو القاسم البلخی: إذا کان الأول تعب ودار علی الناس فلہ أجر مثلہ بقدر عنائہ وتعبہ. قال أبو اللیث: ہوالقیاس وفی الاستحسان لاأجرلہ؛ لأن العادة أن لایأخذ الأجر بدون البیع . قال قاضی خان: وہذا موافق قول أبی یوسف .(شرح منظومة ابن وہبان:/۲ ۷۸الوقف المدنی الخیری)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند