• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 601091

    عنوان: شرکت بالعروض احناف کے نزدیک درست نہیں

    سوال:

    مضاربةمقید اور شرکت عنان کے حوالے سے مندرجہ زیل سوال ہے : میرے پاس زمین ہے - والدہ کے پاس اوپر لگانے کے لیے رقم ہے ۔وہ ضرورت کے حساب سے خرچ دیں گی۔ ہمشیرہ کام کرنے والی ہیں (مضارب)۔ مکان بنوانا اور بیچنا انکے ذمہ ہے - کیا میری اور والدہ کی مال میں شرکت اور ہمشیرہ کا کام والی ہو کر یہ شرکت اور مضاربة جائز ہے ؟ اس میں بندہ کو مندرجہ ذیل اشکال ہیں: ۱- میں مال (cash) ہمشیرہ کے حوالے نھیں کر رہا-

    ۲- میری اور والدہ دونوں کے مال کی جنس نقد نھیں۔ میری زمین ہے اور والدہ رقم لگایں گی۔

    ۳۔ زمین کی قیمت کا بازار سے معلوم کر کے صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگریہ حتمی (exact) قیمت نہ ہو گی۔ اگر زمین کی حتمی قیمت معلوم نہیں تو میرا مال (investment) معلوم نہیں ہو سکتا۔ اگر حتمی مال (investment) معلوم نہیں تو مضاربة کے حوالے سے منافع معلوم نھیں کیا جا سکتا۔

    ۴- مکان بننے پر آنے والے خرچ کا موجودہ وقت پر تعین نہیں کیا جا سکتا۔ کیا آنے والے خرچ کو مال کا حصہ قرار دے کر یہ مضاربة کرنا درست ھے؟

    ۵- اگر بازارسے زمین کا ریٹ لگوا کر یہ مضاربة کرنا درست ہے تو جس وقت بننے کے بعد مکان بکے اس وقت کا اس زمین کا ریٹ معتبر ہے یا اس وقت کاریٹ جس وقت کام شروع کیا جاے ؟

    ۶۔ ہمشیرہ(مضارب) کے انتقال کی صورت میں اگر والدہ تعمیر مکمل کرانے کا ذمہ لیتی ہیں تو ہمشیرہ کا طے شدہ حصہ باقی رہے گا اور ان کے ورثاء کو دیا جاے گا؟

    ۷۔ میرے انتقال کی صور ت میں معاہدہ کی پابندی کی جاے گی اور ورثا کو منافع دیا جاے گا؟

    ۸- والدہ کے انتقال کی صورت میں کیا ان کے ترکے میں سے مال لے کر اس معاہدہ کی پابندی کی جاے گی اور آنے والے منافع کو ورثاء میں تقسیم کیا جاے گا یا بندہ یا کوئی اور فریق والدہ کی جگہ گھربننے پر آنے والے بقایا خرچ کا ذمہ لے کر شریک بن سکتاہے ؟

    اس صورت میں والدہ کی ادا شدہ رقم کا باقی تمام مال کے تناسب سے والدہ کے حصہ کا منافع ان کے ورثاء کو دیا جا سکتا ہے ؟ کیا اس صورت کو اپنے پہلے معاہدہ میں لکھنے سے یہ شکل جائز ہو جاے گی؟

    جواب نمبر: 601091

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 184-72T/D=05/1442

     (ا تا ۵) آپ والدہ کے ساتھ جو معاملہ کرنا چاہتے ہیں، وہ شرکت کا ہے، اور شرکت بالعروض (روپے کے علاوہ دوسری چیز) احناف کے نزدیک درست نہیں، لیکن اگر ایک شریک کی رقم ہو اور دوسرے کی مثلا زمین تو شرکت اس طرح کرلی جائے کہ زمین کی مارکیٹ ویلو مقرر کرکے آدھی زمین یا کچھ حصہ زمین کا، نقد والا شریک خریدلے، اب اس طرح زمین والے کے پاس نقد بھی ہوگئے اور نقد والے کے پاس زمین بھی ہوگئی، تو اس طریقے پر آپ اور والدہ باہم شرکت کا معاملہ کر سکتے ہیں، نفع کا تناسب باہم طے کرلیں، اور نقصان سرمائے کے تناسب سے ہر ایک کو برداشت کرنا ہوگا۔ فی الہندیة: الشرکة إذا کانت بالمال لا تجوز، عناناً کانت أو مفاوضةً ، إلا إذا کان رأس مالہما من الأثمان التي لاتتعین في عقود المبادلات، نحو الدراہم والدنانیر، فأما یتعین في عقود المبادلات نحو العروض والحیوان فلا تصح الشرکة بہما الخ (2/315، الفصل الثالث من کتاب الشرکة ، ط: زکریا) وحیلة جواز الشرکة بالعروض مذکورة في ص: 316، من المجلد: 2 ۔ وفیہا: والوضیعة ابداً علی قدر روٴوس أموالہما (2/326) ۔

    البتہ مالکیہ کے نزدیک شرکت بالعروض درست ہے، حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں ان کے قول کو اختیار کرنے کی گنجائش دی ہے۔ (امداد الفتاوی: 3/495، قدیم)، اس لئے صورت مسئولہ میں ان کے قول کو بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔

    لیکن بہن اس معاملے میں شریک نہ ہوسکیں گی۔ کیوں کہ ان کی حیثیت مضارب کی ہے، اور مضاربت میں رأس المال کا نقد ہونا ضروری ہے۔ في الہندیة: ومنہا أن یکون رأس المال دراہم أو دنانیر ( 4/293، کتاب المضاربة) اب یا تو وہ کچھ رقم (چاہے معمولی ہو) لگاکر شریک بن جائیں اور ان کا بھی نفع میں تناسب طے کردیا جائے، یا انہیں عمل کی اجرت مقرر کرکے اجیر (ملازم) رکھ لیا جائے، پھر وہ اپنے عمل کی مقررہ تنخواہ پائیں گی، اس صورت میں نفع نقصان میں ان کی کوئی حصہ داری نہ ہوگی۔

    بعض علماء نے مضاربت بالعروض کی بھی گنجائش دی ہے، (فتاوی عثمانی: 3/38-39) اس لئے بہ وقت ضرورت اس قول پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے، لیکن مضاربت کی شرائط سخت ہیں، انہیں اچھی طرح سمجھ کر مضاربت کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ اور عقد کے وقت کی قیمت کو رأس المال قرار دیا جائے گا۔ (حوالہٴ سابقہ)

    (۶تا ۸ ) کسی ایک شریک کے انتقال کرنے سے شرکت کا معاملہ ختم ہو جاتا ہے، اب یا تو کاروبار کا حساب کرکے جو کچھ مرحوم کا حصہ نکلے ان کے ورثہ کے حوالے کردیا جائے، یا اگر ان ورثہ کو بھی شریک بنانا ہو تو باہمی رضامندی کے ساتھ ازسرنو شرکت کا معاملہ کرلیا جائے۔

    في الدر: وتبطل الشرکة ، أي: شرکة العقد بموت أحدہما ۔ (ردالمحتار: 6/504، ط: زکریا، کتاب الشرکة، فصل في الشرکة الفاسدة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند