• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 600953

    عنوان:

    كیا بیٹے کو جائیداد کا حصہ اپنی زندگی میں ہبہ کیا جا سکتا ہے ؟

    سوال:

    اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں میری پانچ بیٹے ہیں، میری چار بہنیں ہیں جن کے خاوند زندہ اور ماشائاللہ اپنے اپنے گھروں میں خوشحالی سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ میرے والد صاحب ماشائاللہ حیات ہیں انہوں نے 2.5 مرلے مکان آج سے تیس سال پہلے خود خریدا تھا اور بنوایا۔ اب انہوں نے اپنی زندگی میں ہی 2.5 مرلے میرے نام کر رجسٹری کر دیا۔ اب بہنوں کی ڈیمانڈ ہے کہ ہمارا بھی حق ہے اور وہ والد صاحب سے ناراض ہیں اور لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا بہنوں کی ناراضگی اور لاتعلقی کا اظہار جائز ہے جبکہ والد نے اپنی زندگی میں اپنے اکلوتے بیٹے یعنی میرے نام مکان کیا کیونکہ میرے پانچ بیٹے ہیں۔ کیا والد کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بیٹے کے نام کر دے ؟

    جواب نمبر: 600953

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:187-149/sd=3/1442

     والد صاحب اپنے مملوکہ مال و جائداد کے مالک و مختار ہیں، وہ جس طرح تصرف کرنا چاہیں کرسکتے ہیں، اگر وہ کسی اولاد کو مکان ہبہ کرکے مالک و قابض بنادیں، محض زبانی یا تحریری رجسٹری پر اکتفا نہ کریں، تو ہبہ مکمل ہوجائے گا اور ملکیت منتقل ہوجائے گی؛ لیکن افضل طریقہ یہ ہے کہ زندگی میں اولاد کو اموال و جائداد دینے میں برابری سے کام لیا جائے اور بعض اولاد کو بالکلیہ محروم کردینا گناہ ہے ، پس صورت مسئولہ میں اگر آپ کے والد نے بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا ، تو وہ گنہگار ہوئے ،تاہم اگر انھوں نے مکان ہبہ کرکے مالک و قابض بنادیا ہے اور خود مکان سے دست بردار ہوگئے ہیں، تو شریعت کی رو سے مکان آپ کی ملک سمجھا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند