• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 600817

    عنوان: شریک کو باقاعدہ اجیر بنانا درست ہے یا نہیں؟

    سوال:

    مجھے ایک مسئلے کا حل مطلوب ہے وہ یہ ہے تین شریکوں نے جس میں سے ایک نے 50 فیصد اور دوسرے دو نے 25۔ 25 فیصد رقم نکال کر ایک بیکری شروع کی ہے ۔ شرکت کے وقت یہ شرط ہوئی کہ جب سال پورا ہوگا اس وقت ہم پورے سال کا حساب کریں گے ۔اس میں جو نفع اور نقصان ہوگا اس میں ہم اپنے حصے کے بقدر نفع و نقصان میں شامل ہوں گے ۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس میں سے ایک شریک جس نے پچاس فیصد رقم نکالی ہے وہ کام کرنا جانتا ہے ۔ یعنی بیکری چلانا جانتا ہے ۔ تو کیا وہ شریک ماہانہ تنخواہ لے سکتا ہے یا نہیں؟ نیز دوسرے دو شریکوں نے اپنے عوض ایک شخص کو اجیر رکھا ہے جس کو ہر ماہ بیکری کی آمدنی میں سے تنخواہ دی جاتی ہے ۔تو کیا یہ شریک اپنے کام کے عوض ماہانہ تنخواہ نہیں لے سکتا؟ اگر نہیں لے سکتا تو کوئی جواز کی صورت بتلائیں جس میں یہ شریک اپنے محنت کی اجرت حاصل کر سکیں۔

    جواب نمبر: 600817

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:265-247/L=4/1442

     شریک کو باقاعدہ اجیر بنانا درست نہیں؛ البتہ اگر کوئی شریک عمل کرے اور نفع سے اس کا فیصد زائد کردیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔ یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے۔

    و(مع التفاضل فی المال دون الربح وعکسہ) (الدر المختار) وفی رد المحتار: (قولہ: ومع التفاضل فی المال دون الربح) أی بأن یکون لأحدہما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوی فی الربح، وقولہ وعکسہ: أی بأن یتساوی المالان ویتفاضلا فی الربح، لکن ہذا مقید بأن یشترط الأکثر للعامل منہما أو لأکثرہا عملا، أما لو شرطاہ للقاعد أو لأقلہما عملا فلا یجوز کما فی البحر عن الزیلعی والکمال. (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) ۴:۳۱۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند