• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 600291

    عنوان:

    پہلی بیع فسخ كركے آج كی ویلیو پر دوكان خریدنا؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں زید کی مارکیٹ میں ایک دکان ہے اس نے اپنی وہ دکان عمر کو لگ بھگ بیس سال سے کرائے پر دے رکھی ہے ، دس سال بعد ،ان دونوں کا آپس میں اس دکان کو بیچنے کا معاہدہ طے ہو گیا اور قانونی کاغذات کی کارروائی بھی مکمل ہو گئی تھی جس میں زید نے اپنے کرایہ دار کو مالک بنا دیا تھا اور اس سے بینک دوارا دوکان کا معاوضہ اور قیمت بھی وصول کرلی تھی لیکن قبضہ ، کرائے دار عمر کا ہی رہا ،اسی درمیان کچھ مہینے بعدبینک دوارا زید نے عمر کے پیسے واپس کر دیے ۔ اور یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ عمر زید کو اس دکان کا کرایہ برابر ادا کرتا رہا ہے کاغذات کے اعتبار سے سے کرائے دار عمر آج بھی اس دکان کا مالک ہے اور مالک زید، دکان، اب نہیں دینا چاہ رہا ہے اور عمر مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے ( جو کہ آج سے دس سال پہلے ہونے والے عقد کے مقابلے کافی زیادہ بیٹھتی ہے ) دوکان کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے ۔

    دریافت طلب امر یہ ہے کہ عمر اگر آج کی ویلیو پر دکان خرید لیتا ہے تو اس کا یہ قیمت دینا اور مالک کا آج کے اعتبار سے رقم لینا شرعا کیا حکم رکھتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں ۔ بینوا توجروا۔

    جواب نمبر: 600291

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 136-47T/B=05/1442

     صورت مذکورہ میں اگر زید اور عمرو دونوں نے پہلی بیع فسخ کردی تھی تو اب اگر عمرو کرایہ دار آج کی ویلیو پر دوکان خریدتا ہے اور زید اس پر راضی ہے تو عمر کا آج کے لحاظ سے قیمت ادا کرنا اور زید کا لینا درست رہے گا۔ اور موجودہ ہی قیمت پر خرید و فروخت کرنی چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند