• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 57955

    عنوان: میں نے 10 ماس کاغذی سونا خریدا ،چند ماہ کے بعد بیچ دیااور روزانہ کئی مرتبہ یہ بھاؤ اوپر نیچے ہوتارہتاہے ،میں چاہوں تو دن میں کئی مرتبہ لے کر بیچ سکتاہوں

    سوال: Statement Gold / Passbook Gold (1 Mace Troy میں نے 10 ماس کاغذی سونا خریدا ،چند ماہ کے بعد بیچ دیااور روزانہ کئی مرتبہ یہ بھاؤ اوپر نیچے ہوتارہتاہے ،میں چاہوں تو دن میں کئی مرتبہ لے کر بیچ سکتاہوں ،اور اگر نہ چاہوں تو بینک کے پاس گرانٹی سے 10 ماس(جتنا بھی لیاگیاہو) ٹروئے پیپر گولڈ پڑاہوتاہے ،،یعنی میں نے 10 ماس ٹروئے خریدا کتنے کا لیااس کی کوئی ویلیو نہیں بلکہ اصل ویلیو 10 ماس کی ہوگی اور بیچتے ہوئے بھی میں چاہوں تو 1 ماس یا اکھٹا10 ماس بیچ سکتاہوں ،لیکن اس وقت سونے کا جو ریٹ ہوگااس کی قیمت پر بکے گا ،اس میں فائدہ بھی ہے اگر ریٹ اوپر چلاجائے اور نقصان بھی ہے اگر ریٹ گرکرکم ہوجائے ۔چناں چہ یہی کام اگر میں کاروباری نیت سے کروں تو یہ جائز ہوگا یا ناجائز،اگر یہ کام مشکوک یا مباح بھی ہوتو مجھے بتائیں میں اس کام میں ہاتھ نہ ڈالوں۔ مزید تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھئے ۔سب سے اوپر پیپر اور سٹیٹمنٹ گولڈ کے خروفروخت کا ریٹ ہے جو بدلتارہتاہے ۔ https://bank.hangseng.com/1/2/rates/gold-prices/gold-prices آپ کی رہنمائی کا انتظار رہے گا۔جزاک اللہ ۔

    جواب نمبر: 57955

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 491-503/N=7/1436-U صورت مسئولہ میں آپ نیٹ کے ذریعہ ۱۰/ ماس یا اس سے کم وبیش جو کاغذی سونا خریدیں گے، اس کا بائع (بینک) کی ملکیت اور ضمان میں ہونا اور اس کا معلوم ومتعین ہونا (یا اسے متعین کرکے الگ کردینا) ضروری ہوگا؛ لہٰذا اگر آپ کا بائع آپ کے ہاتھ وہ فروخت کرتا ہے جو ابھی اس کی ملکیت میں نہیں آیا، یا اس کی ملکیت میں تو آگیا، لیکن ابھی اس کے قبضہ وضمان میں نہیں آیا یا وہ معلوم ومتعین نہیں ہے؛ بلکہ اس نے آپ کے ہاتھ لا علی التعیین کوئی دس ماس یا اس سے کم وبیش کاغذی سونا فروخت کردیا اور اسے متعین کرکے الگ بھی نہیں کیا تو یہ بیع شرعاً درست نہ ہوگی، اور نیٹ پر جو خرید وفروخت ہوتی ہے، اس میں عام طور بر ان چیزوں کی رعایت نہیں ہوتی، یعنی: ایسی چیزیں بکثرت فروخت ہوتی ہیں جو خرید وفروخت کے وقت بائع کی ملکیت میں نہیں ہوتیں یا ابھی بائع کے قبضہ میں نہیں آئی ہوتی ہیں یا ان کی تعیین وغیرہ نہیں ہوتی۔ نیز آپ کوئی سونا خریدکر کسی اور کے ہاتھ فروخت کرنا چاہیں گے تو فروخت کرنے سے پہلے اس پر آپ کا شرعی قبضہ ہوجانا ضروری ہوگا، اس سے پہلے وہ سونا آپ کے لیے کسی اور کے ہاتھ فروخت کرنا جائز نہ ہوگا جب کہ نیٹ کے ذریعہ خرید وفروخت میں عام طور اس کی بھی رعایت نہیں ہوتی۔ الحاصل آپ نیٹ کے ذریعہ جو سونے کی خرید وفروخت کا جو سوال میں مذکور طریقہ دریافت فرمارہے ہیں اس میں شرعی اصول کی رعایت مشکل ہے، اور عام طور پر ہوتی بھی نہیں؛ اس لیے مکمل تحقیق کے بغیر اور شرعی اصول کی رعایت کے بغیر نیٹ کے ذریعہ سونے کی خرید وفروخت کرنا جائز نہ ہوگا۔ وشرط المعقود علیہ ستة: ․․․․ وکون الملک للبائع فیما یبیعہ لنفسہ․․․ فلم ینعقد بیع المعدوم․․․․ ولا بیع ما لیس مملوکا لہ وإن ملکہ بعدہ الخ․․․․ وأما الثالث وہو شرائط الصحة فخمسة وعشرون منہا عامة ومنہا خاصّة فالعامّة لکل بیع․․․ و معلومیة المبیع ومعلومیة الثمن بما یرفع المنازعة فلا یصح بیع شاة من ہذا القطیع․․․، والخاصة، ․․․ القبض في بیع المشتري المنقول، ․․․․ نعم یزاد في شروط المعقود علیہ إذا لم یریاہ الإشارة إلیہ أو من کلامہم تفریعًا وتعلیلاً أن المراد بمعرفة القدر والوصف ما ینفي الجہالة الفاحشة و ذلک بما یخصص المبیع عن أنظارہ وذلک بالإشارة إلیہ لو حاضرًا في مجلس العقد وإلا فبیان مقدارہ مع بیان وصفہ لو من المقدرات کبعتک کرّ حنطة بلدیة مثلاً بشرط کونہ في ملکہ أو ببیان مکانہ الخاص إلخ (شامي: ۷/۵۱)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند