• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 57811

    عنوان: کیا اس طرح کا سودا یا منافع از روئے شرشریعت جائزہے جب کہ خود خریدنے کے قابل نہ ہو اور محض ایڈوانس کے پیسوں کا کہیں سے بندوبست کرکے سودا کیا ہو؟

    سوال: میرا ایک دوست ہے جو اسٹیٹ اجینسی(estate agency ) چلاتاہے، اس نے ایک معاملہ ایساکیا کہ اخبار میں اشتہار دیکھا اور مشتہر سے مکان کی قیمت معلو م کری جو کہ مارکیٹ کی قیمت سے کافی کم تھی(تقریباً دس لاکھ کم ) تو اس نے فوراً سودا طے کرلیا اور اپنے بھائی سے کچھ پیسے لے کر ایڈوانس تقریباً سات لاکھ ادا کر کے معاہدہ کرلیا جب کہ اس کے پاس ایڈوانس کی ادائیگی کے بھی پیسے نہیں تھے، عام طورپر معاہدہ کے تحت تین مہینے کے اندر بقیہ رقم ادا کرنی ہوتی ہے تو اس نے اگلے دو چار دنوں میں اس مکان کا تقریبا دس لاکھ زیادہ قیمت پر دوسری پارٹی سے سود ا کردلیا اور مقررہ وقت پر مکان کی رجسٹری نئے خریدار کے نام کردی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا سودا یا منافع از روئے شرشریعت جائزہے جب کہ خود خریدنے کے قابل نہ ہو اور محض ایڈوانس کے پیسوں کا کہیں سے بندوبست کرکے سودا کیا ہو؟

    جواب نمبر: 57811

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 461-478/N=6/1436-U صورت مسئولہ میں اگر آپ کے دوست نے مکان مالک یا اس کے وکیل سے باقاعدہ ایجاب وقبول کے ذریعہ خرید وفروخت کا معاملہ ہوجانے کے بعد یہ مکان دوسرے کے ہاتھ نفع کے ساتھ فروخت کیا ہے تو اگرچہ ابھی انھوں نے اپنے بائع کو پورا پیسہ نہ ادا کیا ہو اور نہ ہی مکان اپنے نام رجسٹری کرالیا ہو تب بھی از روئے شرع یہ معاملہ جائز ہے؛ کیوں کہ شرعی اعتبار سے ایجاب وقبول ہوتے ہی مبیع بائع کی ملکیت سے نکل کر مشتری کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، ملکیت کی تبدیلی پورا پیسہ ادا کردینے یا رجسٹری کرانے پر موقوف نہیں ہوتی۔ اور اگر آپ کے دوست نے ابھی مکان مالک یا اس کے وکیل سے صرف وعدہ کیا تھا، باقاعدہ ایجاب وقبول کے ذریعہ دونوں میں خرید وفروخت نہیں ہوئی تھی کہ انھوں نے یہ مکان اپنی طرف سے کسی اور کے ہاتھ فروخت کردیا تو اس صورت میں حکم دوسرا ہوگا؛ لہٰذا ایسی صورت میں پوری تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کرلیں۔ أما القول فالإیجاب والقبول وہما رکنہ وشرطہ أہلیة المتعاقدین، ومحلہ المال وحکمہ ثبوت الملک (درمختار مع الشامي: ۷/ ۱۴-۱۶، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند